میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار سے ذرائع نے بتایا کہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف عدالت نے فیصلے کا اعلان ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں سوچی بقیہ تمام عمر جیل میں بسر کر سکتی ہیں۔
میانمار کی ایک عدالت نے معزول مگر انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی کے خلاف ایک مقدمے کے ابتدائی فیصلے کا اعلان ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔ اب عدالت چھ دسمبر کو فیصلہ سنائے گی۔
اس مقدمے میں ان پر الزام عائد ہے کہ انہوں نے کووڈ انیس کے ضوابط کی خلاف ورزی کے علاوہ فوج کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکائے تھے۔ یہ ان کے خلاف قائم مختلف مقدمات میں سے ایک ہو گا، جس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
انہیں رواں برس پہلی فروری کو فوجی بغاوت کے بعد فوج کے سب سے سینیئر جرنیل کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے گرفتار کیا گیا تھا۔ پہلی فروری سے انہیں مقید رکھا گیا ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد سے انگ سان سوچی کو گرفتار کرنے کے بعد فوجی حکومت کے استغاثہ نے ان پر کئی قسم کے الزامات عائد کر رکھے ہیں۔ ان میں ایک تو وہ ہے، جس کا فیصلہ اب چھ دسمبر کو سنایا جائے گا اور اس میں انہیں کورونا وبا کے نافذ کردہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزام کے ساتھ فوج کی خلاف عوامی جذبات بھڑکانا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور مقدمے میں بغیر لائسینس کے واکی ٹالکی ٹیلی فون سیٹ رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایک اور مقدمہ سرکاری راز کے قانون کی عدم پاسداری ہے۔ انہیں الیکٹورل فراڈ کے مرتکب ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ ان پر ایک دوسرا الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے غیر قانونی انداز میں چھ لاکھ ڈالر کی نقد رقم اور سونے کی وصولی کی تھی۔
حالیہ ہفتوں کے دوران آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے کئی اعلیٰ عہدے داران اور اہم ملکی سیاستدانوں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت عدالتی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ایک سابق چیف منسٹر تھان نیئنگ کو نومبر کے اوائل میں ملکی عدالت نے پچھتر سال کی سزائے قید سنائی ہے۔ اسی طرح سوچی کے ایک معاونِ خصوصی یو وِن ہتین کو بیس برس کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور اس وقت ملک کے صدر وِن مِنٹ کو بھی خاتون رہنما کی طرح گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں بھی کئی الزامات کا سامنا ہے اور وہ بھی عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
فوجی حکومت کے مخالفین کے بیانیہ سے ملکی عدالتوں کے بارے میں جو عمومی تاثر پیدا ہو چکا ہے، اس کے مطابق تمام ملکی سول کورٹس فوج کے احکامات کی پاسداری کرتی ہیں اور ان کے فیصلے بھی فوجی جرنیلوں کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔