ہالینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں روہنگیا اقلیت کی مبینہ نسل کشی کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت جاری ہے۔ اس مقدمے میں میانمار کی نمائندگی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی رہنما آنگ سان سوچی نے کی۔
آنگ سان سوچی نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف ہیگ کے ججز کےسامنے اپنے طویل بیان میں کہا کہ روہنگیا کا بحران میانمار کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس مناسبت سے گیمبیا نے نا مکمل اور گمراہ کن حقائق بیان کئے ہیں۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے سوچی نے کہا، ”اگر جرائم ہوئے ہیں تو قانون کے تحت ان کے خلاف ملکی قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج مسلح باغیوں کے خلاف ملک کا دفاع کر رہی تھی کیونکہ سن 2016 میں پولیس اسٹیشنوں پر حملے ہوئے تھے۔ سوچی عدالت کو یقین دلایا کہ جو جرائم کیے گئے ہیں، اُن میں ملوث سویلین افراد کے خلاف بھی مناسب کارروائی کی جائے گی۔
آنگ سان سوچی نے اپنے طویل بیان میں میانمار کی ریاست راکھین کی صورتحال کو پیچیدہ قرار دیا۔ انہوں اس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ مسلمانوں کی تکالیف کو تسلیم کرتی ہیں اور اسی باعث وہ اپنی جان بچاتے ہوئے بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ سوچی کے مطابق گیمبیا نے اپنی درخواست میں راکھین ریاست کی پیچیدہ صورتحال کی نا مکمل اور گمراہ کن تصویر کشی کی ہے۔
سوچی نے بین الاقوامی عدالت کے ججوں کے سامنے اپنے طویل بیان میں لفظ روہنگیا یا مسلمان اقلیت استعمال کرنا بھی گوارا نہ کیا بلکہ لفظ غیر قانونی تارکین وطن، مہاجرین اور دہشتگرد کا لفظ استعمال کرتی رہیں۔ انھوں نے اس معاملے کو قطعی طور پر میانمار کا ایک داخلی مسسلہ قرار دیتے ہوئے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کر دیا۔
آنگ سان سوچی کے دفتر نے گزشتہ روز اُن کی دی ہیگ آمد کے حوالے سے دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ وہ قومی مفاد کا دفاع کرنے گئی ہیں۔ سوچی کی حمایت میں ینگون میں ہزاروں افراد نے ریلی بھی نکالی تھی۔
یاد رہے کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں منگل دس دسمبر کو استغاثہ کی جانب سے روہنگیا مسلمان خاندانوں کو مبینہ طور پر ان کے گھروں میں زندہ جلائے جانے، بڑے پیمانے پر عصمت دری اور درجنوں بچوں کو ذبح کرنے کا شواہد پیش کیے۔ یہ مقدمہ افریقی ملک گیمبیا کی جانب سے بدھ مت کے پیروکار ملک میانمار کے خلاف نومبر میں دائر کیا تھا۔ گیمبیا کے وزیر انصاف نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اُن کا ملک صرف یہ چاہتا ہے کہ میانمار یہ قتل و غارت گری بند کرے۔
یاد رہے کہ روہنگیا میں فوجی کریک ڈاون کے بعد سات لاکھ تیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش کی سرحد پرکیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میانمار کی جانب سے اس سے قبل بھی روہنگیا اقلیت کی اجتماعی عصمت دری اور ہلاکتوں کے تمام الزامات کی تردید کی جاتی رہی۔