واشنگٹن (جیوڈیسک) میانمار کی نئی سولین رہنما، آنگ سان سوچی آئندہ ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گی، ایسے میں جب امریکہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک سے تعزیرات اٹھانے یا نرم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے اس بات کا اعلان منگل کے روز لاؤس میں اپنی تقریر میں کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ امن کی نوبیل انعام یافتہ 14 سے 15 ستمبر تک امریکہ کا دورہ کریں گی۔
آنگ سان سوچی کا دورہٴ امریکہ حکومت کے فی الواقع رہنما کے طور پر عالمی سطح پر اثرات مرتب کرے گا۔ حالانکہ، اُنھوں نے نومبر کے انتخابات میں واضح فتح حاصل کی، سابق فوجی جنتا کی جانب سے مرتب کردہ مسودہٴ آئین میں آنگ سان سوچی پر صدارت کا عہدہ سنبھالنے پر پابندی ہے۔ برعکس اس کے، وہ وزیر خارجہ کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں، اور اُنھوں نے ملک کی مشیر کا نیا عہدہ سنبھالا ہوا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ آنگ سان سوچی سے مشاورت کے بعد کہ میانمار کی طاقتور فوج کے خلاف دباؤ میں وہ کس حد تک کمی کی خواہاں ہیں، اوباما یہ بات طے کریں گے آیا تعزیرات میں کتنی نرمی برتی جائے۔ جن دِنوں مخالف رہنما قید تھیں، امن کی نابیل انعام یافتہ اور جمہوریت کی علامت نے امریکہ کو باور کرایا کہ فوجی قیادت والی حکومت کے خلاف امریکہ تعزیرات لاگو کرے۔
آنگ سان سوچی جمہوری عبوری دور میں اُن کے ملک کو درکار معاشی فوائد دکھائیں گی، جب کہ وہ اضافی اصلاحات کے لیے ملک کے فوجی رہنماؤں کے خلاف دباؤ قائم رکھنا چاہیں گی۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ جیسے حقوق انسانی کے گروپ میانمار کے خلاف اُس وقت تک تعزیرات اٹھانے کے خلاب ہیں جب تک یہ ثبوت نہیں مل جاتا کہ جمہوری عبوری دور ناقابلِ تبدیل ہے۔
امریکہ میانمار کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، تاکہ ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کا توڑ ڈھونڈنے میں مدد کی جائے۔ امریکہ اپنے کاروباری حضرات کی بھی مدد کرنا چاہتا ہے جو دنیا کے آخری ’’سرحدی منڈیاں‘‘ ہیں، جو تیزی سے فروغ پا رہی ہیں، لیکن اُن کی معیشتیں تیزی سے ترقی نہیں کر رہی ہیں۔