آج معاشرے کے ہر فرد کی زبان پر یہ شکوہ عام ہے کہ ملک پاکستان دن بدن مسائل ستان بنتا جارہاہے، کہیں دہشت گردی، کہیں لوٹ مار، کہیں چوری ڈاکہ،کہیں قتل و غارت گری،کہیں رشوت، کہیں سفارش اور کہیں اسلامی تہذیب و تمدن سے احتراز کرتے ہوئے مغربی ثقافت کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ہماری نسل اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ حکمران ہوں یا سیاستدان، عدلیہ، مذہبی پیشوا، انسانی حقوق کے علمبردار اور میڈیا سے وابستہ افراد سب کے سب مسائل پر نوحہ کناں ہیں۔
مگر اب تک نہ کسی نے ان مسائل کی اساس و بنیاد کی طرف نشاندہی کی ہے اور نہ ہی کسی نے اس کا حل تجویز کیا ہے۔ راقم بھی ایک طویل مدت سے ان مسائل کا رونا روتا رہاہے اور لکھتا بھی رہا۔ طویل سوچ و بچار اور مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کے ہمارے مسائل کیے پیدا ہونے کا سبب بھی ایک ہے اور اس کے خاتمے کا سبب بھی وہی ہی ہے۔ راقم کے نزدیک تمام تر جرائم، برائیوں اور خرابیوں کے مرتکبین صرف اور صرف تعلیم یافتہ افراد ہیں۔
کرپشن، لوٹ مار، سفارش، اپنی ذمہ دایوں سے روگردانی، چوری ڈاکہ، اخلاقی بے راہ روی سمیت تمام مسائل تعلیم یافتہ افراد سرانجام دے رہے ہیں کیوں کہ غیر تعلیم یافتہ افراد تو ان گمبھیر مسائل کی گدیاں سلجھانے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو وہ ان جرائم کا مرتکب کیسے ہوسکتا ہے اب جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہمارے معاشرتی انحطاط و زوال کی اساس و بنیاد تعلیم ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان مسائل سے نکلنے کا ذریعہ بھی تعلیم ہی ہے۔
یعنی کہ ہم اگر اپنے معاشرے میں درست، انسانی اقدار کی محافظ، اسلامی اخلاقیات پر مبنی تعلیم رائج کریں گے تو ایسے میں ہمارے معاشرے سے تمام اقسام کے جرائم ختم ہو سکتے ہیں۔ بصورت دیگر موجودہ نظام و نصاب تعلیم جو کہ مروج ہے یہاں سے نکلنے والا فرد کرپشن، لوٹ مار، چوری ڈاکہ اور انسانی اقدار و اسلامی اخلاق سے عاری افراد ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے اور ہمارا ملک بتدریج یونہی مسائل کی دلدل میں دہنستا چلاجائے گا۔ ویسے تو راقم نے ملک پاکستان میں نظام و نصاب تعلیم کے لیے حسب استطاعت اصلاح کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں ”وحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان ”کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا ہے انشا اللہ بہت جلد فورم کا تعارف ،نصب العین اور مجوزہ نظام و نصاب تعلیم میں اصلاحات قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔ مگر آج سردست میں تعلیم فراہم کرنے والے مسیحائوں کی خدمت میں دو راہنما اصول تحریر کرنا چاہتا ہوں۔
Teachers
اگر اساتذہ ان بنیادی اصولوں پر دیانت داری کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں تو ملک و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان قیاد ت میسر آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہمارا ایمان و یقین ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم معلم انسانیت ہیں۔ جب بھی کوئی شخص تعلیم کے شعبہ میں کام کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کو چاہیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ضرور مطالعہ کرے کہ آپ نے بحثیت استاد اپنی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کیا ہے۔
کیوں کہ مسلم استاد کے لیے پیروی و تقلید کرنے کی مثال نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے وقت دو باتوں کا اہتمام کے ساتھ خیال رکھا یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاقیامت سب سے بڑئے اور کامیاب معلم ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دیتے وقت اپنے طرز عمل اور رویہ کو مشفقانہ، محبانہ اور دوستانہ رکھا۔ جس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد بلا کسی خوف و خطر آپ سے ہر مسئلہ و پریشانی کے بارے میں سوال کرلیتے تھے۔
اس کی بے شمارو متعدد مثالیں سیرت کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو بطور نمونہ پیش کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو جوبھی حکم دیتے تھے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دیکھاتے تھے۔ یعنی پانچ نماز نمازوں کا حکم صحابہ کرام کو دیا تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ نمازیں اداکرتے تھے اسی طرح دیگر تمام احکامات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملی نمونہ ہوتے تھے۔
اس مختصر تحریر میں تمام مثالیں درج کرناممکن نہیں اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مبنی کتب کا وسعت قلبی و گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور خود اپنے اندر بھی ایسے اوصاف حمیدہ پیدا کرلیں کہ وہ ایک کامیاب اور بہتر استاد ثابت ہوسکیں۔ اگر ہمارے استاد اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کریں گے تو معاشرے کو مستقبل میں اچھی اور صالح قیادت میسر آسکے گی۔
Atiq-ur-Rahman
تحریر: عتیق الرحمن mob:03135265617 e-mail:deskibaat1987@gmail.com