پاکستان نشانہ ہے

Pakistan

Pakistan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ آنکھ مچولی مدت سے جاری ہے امریکی اپنا کام کرتے ہیں اور پاکستانی اپنا۔ساری ان کی نہیں مانی جاتیں اور وہ نہ ساری ہماری مانتے ہیں۔ایک فرق ضرور ہوا کہ امریکہ کے نصیب میں ایک ایسا صدر لکھ دیا گیا ہے جو گوربا چوف کو بھلا دے گا۔اس نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کردار ادا کیا تھا اور یہ مہاشے امریکہ کو ٹوتے کر دیں گے۔ہے ناں سراسر زیادتی کی بات ایک طرف لاڈیاں بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف سے چھمکوں کی مار بھی دیتے ہیں ۔پاکستان کو کیا کرنا چاہئے جی بلکل وہی جو جنرل باجوہ نے کیا ہے ۔قوم اس وقت جنرل باجوہ کی طرف دیکھ رہی ہے میرے خیال میں وہ مقبولیت میں جنرل راحیل کی بلندیوں کو یا تو چھو چکے ہیں یا کہیں آگے پیچھے ہیں۔ایک مدت تک یہ شور مچا رہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نہیں ہیں اور وہ جو ہیض ہیں کرتے تھکتے نہیں تھے انہیں وزیر خارجہ بنا کے کیا ملا۔

موصوف نے شائد منہ میں گھنگنیاں ڈال رکھی ہیں ۔خاموشی ایسی کے بس ہو کا کا عالم ہے۔جناب خاقان عباسی جو سعودی عرب کے ایک اقامہ ہولڈر ہیں (یاد رہے ان کے والد گرامی کا سعودی عرب میں وسیع کاروبار رہا ہے ۔اے ڈی اے الحسینی کے مالک رہے ہیں اس حوالے سے اقامہ ہولڈر ہیں یا تھے)وہ بھی سعودی عرب کے دورے پر وہاں پہنچے ہیں ہمارے دوست ریاض گھمن کی اطلاع کے مطابق انہیں جدہ کے ایئر پورٹ پر مکہ مکرمہ کے ڈپٹی گورنر نے وصول کیا ہے۔یہ بھی سعودی حکومت کی جانب سے ہمیں پیغام دیا گیا ہے کہ آپپ کو ہم کس کھاتے میں رکھتے ہیں ظاہر ہے ملک کے وزیر اعظم اگر یو اے ای کے اقامہ ہولڈر ہیں اور ہمارے وزیر داخلہ اقامہ رکھنے والے ہیں تو ہماری عزت تو اتنی ہی ہو گی۔

ہم ماضی میں نہیں جانا چاہتے لیکن ایک وقت تھا کہ ہمارے سربراہان مملکت کو سعودی فرماں روا سرخ کارپٹ بچھا کر وصول کیا کرتے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی نئی بات نہیں کی البتہ ان کا انداز بیاں شوخ سا ہے اس وجہ سے ہمیں اچھا نہیں لگا سارے امریکی صدور ہمیں آنے والی جگہ پر رکھتے ہیں۔اسی لئے شائد انہوں نے ہمیں پرانے اندازسے یاد کیا۔ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ جن دنوں نائین الیون کا پہلے سے مرتب کردہ سانحہ ہوا تو امریکی صدر آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے ہمارے صدر محترم کو کہا گیا تھا کہ آپ اس تیز و تند جھکڑ میں بیٹھ جائیں مگر جناب وہ لیٹ گئے نہ صرف لیٹے بلکہ وہ لمیا لیٹ ہو گئے۔کہا جاتا ہے کہ امریکی فون کال کے بعد ان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ شرائط میں سے چند کو مانیں گے لیکن مکا لہرانے والے دلیر سابق صدر ٹھس سے ہو کر رہ گئے۔اللہ کا کرم دیکھئے کہ ہمیں اس سے پہلے والے اور موجودہ چیف کی شکل میں وہ سربراہ ملے ہیں جنہیں عوامی امنگوں کا ادراک ہے۔ان امریکیوں نے ماضی میں ہمیں للکارا بلکہ برا بھلا کہا اور ایک مرتبہ تو یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو ڈالروں کے لئے ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔یہ ایک ایسی گالی تھی جس کا جواب واضح طور پر پاکستانی حکومت کی جانب سے آنا چاہئے تھا لیکن افسوس کے ایسا نہیں ہوا البتہ ایک سابق آرمی چیف کے بیٹے اعجازالحق کو اللہ نے توفیق دی کہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس قوم کو اپنے باپ کا علم نہیں اسے طعنہ دینے کی جرائت کیسے ہوئی۔قارئین یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جہاں ہم کچھ نہیں ہوتے صرف اور صرف پاکستانی ہوتے ہیں۔

جواب تو آنا چاہئے تھا شاہد خاقان عباسی کی طرف سے خواجہ آصف کی طرف سے لیکن جواب دیا گیا آرمی چیف کی جانب سے میاں نواز شریف اس موقع پر لب کشائی کرتے تو اچھا ہوتا اور قوم سمجھتی کہ انہیں اپنا نہیں پاکستان کا احساس ہے لیکن وہ یہ موقع گنوا بیٹھے ویسے بھی کشمیر کے لئے ان سے کہلوایا گیا اور کل بھوشن مسئلے پر تو آنجناب دو لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ہمیںیہاں عمران خان کو سراہنا ہے جنہوں نے دھبنگ الفاظ میں قوم کے جذبات کی ترجمانی کی پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے بھی کھل کے بیان دیا ایک گونگے بنے رہے تو نواز شریف۔مجھے آج جنرل حمید گل یاد آئے اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت بخشے انہوں نے ایک بار کہا تھا اور اس وقت کہا تھا جب لگ رہا تھا کہ ایران گیا کے گیا ان کا میرے گھر میں پریس اور لیڈر شپ کے ایک عشائیے میں کہنا تھا کہ یاد رکھئے ایران بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔

ان دنوں ان کی یہ بات اتنی وزن دار نہ لگی مگر بعد کے دنوں میں دیکھا کہ ایران صاف بچ کے نکل گیا افغانستان کے اندر بیٹھ کر امریکی پاکستان کے خلاف سازشیں بنتے رہے اور پاکستان کو اوکھے پینڈے پاتے رہے ۔اس دوران ایبٹ آباد کا واقعہ بھی ہوا اور بہت سے واقعات ہمارے فوجی مار دئے گئے ہم سے کسی نے تعزیت بھی نہ کی۔ثابت ہوا کہ گائوں کے چودھری کے سامنے جو کمی اور کمین کی حیثیت ہے امریکنوں نے ہمیں وہ دے رکھی ہے۔جب جی چاہتا ہے وہ مارتے ہیں گھس آتے ہیں اور جب دل کرتا ہے پچکارتے ہیں۔آج آرمی چیف نے ہمیں اس گاب سے نکالا ہے اور قوم نے سکون محسوس کیا ہے کہ کوئی ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے۔

سچ پوچھیں جنرل باجوہ کو پاکستان کے زور بازو کا پتہ ہے وہ ملٹری آپریشنز کے انچارج رہے ہیں تربیتی حصے کی کمانڈ کر کے آئے ہیں انہیں پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کے ساتھ قوم کے جذبوں کا بھی ادراک ہے۔یقین کیجئے اگر اس قسم کے فوجی ہمارے پاس نہ ہوتے تو ہمارے سیاسی حکمران ایٹمی صلاحیت کو بیچ کر پتیسہ کھا جاتے۔قوم اس وقت امریکی صدر کے بیان پر غصے سے تلملا رہی ہے اور ایسے میں جنرل باجوہ عمران خان رضا ربانی کے بیانات نے قوم کو حوصلہ دیا ہے۔حیرت کی بات دیکھئے کہ ٹرمپ اس انڈیا کی تعریف کر رہے ہیں جس کا دہشت گردی کی جنگ میں صرف یہ حصہ ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے کل بھوشن بھیج رہا ہے اسے نہ ہنگ لگی ہے نہ پھٹکڑی اور اس پر رنگ بھی چوکھا چڑھ گیا ہے۔ ملک خداداد پاکستان کے خلاف یہ کوئی پہلی سازش نہیں اس سے پہلے بھی لوگ آئے اور اپنی مکروہ خواہشات کو لے کر چلے گئے اللہ نے اس ملک کو محفوظ رکھا اللہ تعالی ملک عزیز پاکستان کو ا ب بھی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائے گاانشاء اللہ(انجینئر افتخار چودھری کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے سیاسی اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں)

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
iach786@gmail.com