تحریر : عثمان غنی آج کل سوشل میڈیا پر سوشل میڈیا کے خلاف پوسٹس کی بھر مار ہے ۔جس میں مخفی الفاظ میں سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔کچھ سیاسی پارٹیوں کو بھی کافی اعتراضات ہیں کہ بھای الیکٹرانک میڈیا تو PTA کے تحت کام کرتی ہے۔اگر کوئی مواد اخلاقیات سے گرا ہوا تو اس کو PTA کے قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سوشل میڈیا مدرپدر آزاد بنا ہوا ہے ۔کوئی بھی فیک اکاونٹ سے کسی مشہور سیاسی و سماجی شخصیت کی کردار کشی کر سکتا ہے ـاور صحافی حضرات بھی اس روش سے محفوظ نہیں۔اگرچہ گورنمنٹ پاکستان نے سائبر قوانین متعارف کراے اور FIA بھی اس حوالے سے کافی متحرک ہے۔
ہمارے ایک سینر کالم نگار نے ٹویٹر کے موجد Evan villains کا حوالہ دیا کہ وہ ان دنوں کافی شرمندہ محسوس کر رہیے ہیں کہ ان کا مقصد اس ایپ کے ذریعے 140حروف ہر مشتعمل پیغام دینا کے سامنے بیان کرنا تھا ایسا مگر ہو نہیں پایا ـمجھ نا چیز کے خیال میں سوشل میڈیا پر تنقید کے باوجود یہ میڈیا علم کے حوالے سے کافی موثر ہے ۔ما ضی میں ہم لوگوں کو سائنسی معلومات اور تعلمی ریسرچ کے لئے لائبریریوں کا رخ کرنا پڑتا تھا اور اب ویسے بھی عمران سریز کا دور نہیں رہا ،آپ کو سوشل میڈیا لائبریری کی شکل میں ہر وم قسم کا مواد پڑھنے کو مل جاتا ہے ۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں ـاگرچہ انسانی خواہشات پر قابو پانا کافی دشوار ہے اور بندہ کام کی چیز ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی ایسی ویب لنک پر پنچ جاتا ہے جس کو بند کر کے واپس تعمیراتی کاموں کی طرف آنا دشوار ہو جاتا ہے ۔لیکن اب نفس کے خلاف جنگ تو ہر حال میں جیتنا پڑے گی ۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آدمی نفس سے بعغل گیرہو کر عارضی زندگی کی رنگ ریلیوں میں گم ہو جائے ۔ کچھ دوست سوشل میڈیا کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنی سوشل میڈیامخالف مہم کو زیادہ سے زیادہ شیر کرنے کے خواہش مند ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا ہے کہ اپنے خلاف چلنے والی مہم کو بھی شیر کیے جا رہی ہے۔
اگر ہم سوشل میڈیا کی بدولت دینا میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر نظر روڈ ئیں تو انقالاب فرانس ہو یا محمد مرسی کی جمہوری حکومت کا امریکی نواز جنرل السیسی کے ہاتھوں تختہ الٹنے کے خلاف عوامی تحریک ہو تو اس میں فیس بک اور ٹویٹر کافی مدد گار ثابت ہوئی ہیں ۔سوشل میڈیا کی مدد سے پہلی عوامی تحریک تیونس میں فیس بک پر “Guru Andy Carvin ,Social Media & Tunisia’s Jasmine Revolution ” سے ہوا ۔تیونس اور مصر میں نوجوانوں کی سوشل میڈیا کی تحریک کو عرب سپرنگ کا نام دیا گیا ـاس تحریک نے ڈاکٹیٹروں کو گھر چلتا کیا ۔
امریکہ کے موجودہ انتخابات میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے کامیابی حاصل کی اگرچہ انٹرنیشنل الیکٹرانک میڈیا ہیلری کلنٹن کو الیکشن کا چیمپئن مانے ہوے تھے ۔مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی میڈیا کی عدم دلچسپی کے باوجود بھارتی فوجیوں کے مظالم کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے دینا تک پنچ رہی ہیں۔
پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف سوشل میڈیا کے ذریعے ایک موثراپوزیشن بن کے أبھری ہے جبکہ یس ک ساتھ والی پیپلزپاڑٹی نوجونوں سے کوسوں میل دور چلی گیٔ ہے۔حکومتی پارٹی ن لیگ کی بھی سوشل میڈیا پرموجودگی پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور دوسری سیاسی پاڑٹیوں پر الزامات ہیں کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر سیل بناے ہوئے ہیں ـاپنے ٹویٹر اور فیس بک کے فیک اکاونٹ کے زدیعے کردار کشی کا وہ طوفان برپا کرتے ہیں کہ شریف آدمی باقی کی زندگی پابند سلاسل ہو جاتا ہے۔ان تمام اعتراضات کے باوجود فیس بک پر جدید مزاح پر بھی فی سبیل اللہ کام ہو رہا ہے ان میں سے چند ایک قارئین کی نظر ـ دیسی لوگ ائرپوڑٹ پر جب اپنے رشتہ داروں کو چھوڑنے آتے ہیں تو “اپنا خیال رکھنا ” کہنے کی بجاے ہمیشہ کہتے ہیں ،سامان کلیر ہو جاے تو کال کرنا ۔ کل رات انٹرنیٹ نہیں چل رہا تھا ،تو میں گھر والوں کے پاس جا کر ٹائم گزار تو پتہ چلا کہ وہ بھی اچھے لوگ ہیں۔
اور جو شوہر حضرات بیوں سے تنگ آے ہوے ہیں وہ بھی اپنے فیس بک اکاونٹ اور ٹویٹر اکاونٹ کے زریعے طنزیہ لطیفے پیش کر کے دل کی بھرکاس نکال لیتے ہیں ـہمارے ایک دوست نے مریخ پر ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے آلو کی کاشت پر تفصیلی کالم لکھا ـاس پر میرا تبصرہ ــ دینا مریخ پر پنچ چکی ہے _اور ایک میں ہوں کہ زمین پر بیگم کی شاپنگ پر کنٹرول نہیں پا سکا ـ جاتے جاے سوشل میڈیا کے مخالفین سے عرض ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی پابندی لگا دی جائے بلکہ پرنٹنگ پریس کا کاروبار کو بھی ختم کر کے نہر کے کنارے بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ ہلاکو خا ن کے ہاتھوں عباسی سلطنت کے آخری بادشاہ آل موستا سم کی شکست کی وجوہات کیا تھیں۔