تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید Social Media یاسماجی ابلاغِ عامہ میں یو ں توتمام ہی ذرئع ابلاغ کو شامل سمجھا جات ہے۔مگر فی زمانہ اخبارات، رسائل و جرائد کو یعنی پرنٹ میڈیا کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور صرف الیکٹرانک میڈیا کو ہی کو سوشل میڈیا سمجھ لیا گیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا میں بھی کئی ذرئع ابلاغِ عامہ کے ہمارے سامنے ہیں۔مثلاََ ریڈیو،ٹیلیویژن وائر لیس اور فلم وغیرہ کو بھی الیکٹرانک میڈیا کا ہی حصہ مانا جاتا ہے۔مگر آج سماجی ابلاَغِ عامہ میں صرف کمپیوٹر، ٹیلیٹ اور موبائل (فون) اور اس جیسے دیگر ذرائع سے پیغام رسانی کو ہی فی زمانہ سوشل میڈیا یا (سما جی ا بلاغ، عامہ) کا ذریعہ سجھاجاتا ہے۔کمپیوٹر جیسی مشین کے ایک مخصوص کے ذریعے سے آج ساری دنیا میں ابلاغ کا رواج ہو چلا ہے۔جو انتہائی سستہ ابلاغ کاذریعہ بن چکا ہے۔جو سکنڈوں میں ہزاروں میل کی مسافت طے کرلیتا ہے۔ ریڈیائی لہروں پر بھیجا جانے والا ابلاغ بھی اسی کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا یا سماجی ابلاغ عامہ کے ذریعے ٹیلنٹیڈ افراد اپنے آپ کو سیکنڈوں میں دنیا کا مشہور ترین فرد بنا نے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ان لوگوں کا تعلق چاہے انتہائی غربت کے ما حول سے ہو یا دنیا کے دولتمند ترین لوگوں سے ہو۔اس ذریعے نے ہر ایک کو اپنے جوہر دکھانے اور اس سے عزت و شہرت حاصل کرنے کا اہل بنا دیا ہے۔اس حوالے سے اگر ہم ماضی میں ہی جھانک کر دیکھ لیں تو اندزہ کرنا مشکل نہیں ہوگا ۔لوگ اپنے جوہر دکھانے کی تگ و دو میں ریڈیو، ٹی وی اور فلم اسٹوڈیوز کے باہراپنی زندگی کا ایک طویل حصہ صرف کردیتے تھے تب کہیں جاکر 100،افراد میں سے کسی ایک فرد کوہی میڈیا پر اپنے جوہر عوام کو دکھانے کا بمشکل تمام موقع میسر آتا تھا۔ اس میں بھی سفارش یا دولت کی چمک شامل ہوتی تھی۔مگر کمپیوٹرایزڈ سوشل میڈیا نے ہرٹیلنٹیڈ فرد کے لئے سماجی ابلاغِ عامہ تک رسائی کے دروازے کھول کے رکھ دیئے ہیں۔
اخلاقیات اور سوشل میڈیا:۔ سماجی ابلاغ عامہ نے انسانی اخلاقیات پر جہاں مثبت اثرات مرتب کئے ہیں وہیں اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔اخلاقیات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ لوگ اخلاقی امور کو ہائی لائٹ کرتے ہیں تو سماج پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاََ اگر کوئی بیمار ہے تو اس کو کروڑوں افراد سوشل میڈیا کے ذریعے دعائیں بھجنے کی کوشش کرتے ہیں،اور بیمار کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔بہترین قدرتی مناظر پیش کرنا ،برائیوں پر دل کھول کر لعن طعن کرنا ۔بہر حال اچھی باتوں سے خوشی کا احساس ہوتا ہے اور برے معاملات پر تعصف کا اظہار کیا جاتا ہے۔اچھے اور خوبصورت لگنے والے مناظر اپنے دوستوں سے شئیر کرتے ہیں توایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اخلا ق باختہ مناظر ناصرف اخلاق کی خرابی پیدا کرتے ہیں ۔جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لیناہونا شروع ہوجاتی ہیں۔جو اخلاقی لحاظ سے ہمارے سماج میں تو کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔اس حوالے سے کمپیوٹرئزد میڈیا کے ساتھ ٹیلیویژن بھی یہ تمام امور تو انجام دیتا ہے ۔ مگر سوشل میڈیا میں اس کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہماپنے خوشی اور غمی کے معاملات آسانی سے لمحوں میں ہم اپنے دوستوں کوپہنچا سکتے ہیں جو اس میڈیا کا ہی کمال ہے۔اس ذریعے سے ہر فرد اپنا سماجی اور مذہبی نقطہ نظر ساری دنیا کو بہ آسانی پہنچا سکتا ہے۔
مذہب اور سماجی ابلاغِ عامہ:۔ سوشل میڈیا کے ذریعے تبلیغِ دین و مذہب کا کام بہت ہی آسانی کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے۔جہاں سے نوعِ انسانیت کو مذہبی و اخلاقی معلومات بے حد آسانی کے ساتھ فراہم کرنے میں یہ بے حد معاون ثابت ہو رہا ہے۔ انسانی اخلاقیات پر مذہبی حوالے سے سماجی ابلاغِ عامہ ہر طرح کے مذہبی اور ساتھ ہی جذباتی اثرات کو بھی غالب کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔کئی لوگ دین سے ہٹ کر دین کے نام پر غلط معلومات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔توجس کے رد میں لوگ اسی میڈیا پر آوازیں بھی اُٹھاتے رہتے ہیں ۔تاکہ غیر معیاری مذہبی اطلاعات کو روکا جا سکے۔ منفی مذہبی یا مثبت مذہبی ابلاغِِ عامہ لازمی طور پر کسی نہ کسی طرح لوگوں پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔منفی پہلوسے بعض اوقات مذہبی و اخلاقی نقطہِ نظر کا پہلو دھندھلانے کا اندیشہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر یہ بات ہر ایک کو اپیل نہیں کرتی ہے۔تب ہی تو لوگ اس پیغام کے منفی پہلووں کو اجاگر کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے ہیں ۔جو لوگ منفی نقطہِ نظر کے حامی بن چکے ہوتے ہیں وہ انجانے میں ایسے نقطہِ نظر کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جو ایسے پیغاموں پر واہ واہ بھی کرتے ہیں۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ان کا مخالف طبقہ یا فرقہ شاید انہیں ورغلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایسے لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر ’’دینِ ملا فساد فی سبی للہ‘‘ سے باہر آنے اور کوئی مثبت بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ اسکتے ہیں کہ مذہب کے حوالے سے سماجی ابلاغِ عامہ مذہبی اخلاقیات کے ضمن میں مثبت و منفی پہلووں کو بہر حال اجاگر کرنے میں کہیں بھی پیچھے نہیں ہے ۔ہر کوئی اپنی سمجھ بوجھ کے تحت اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔آج عوامی مذہبی آگاہی کے کاموں میں سوشل میڈیا بہترین اثرات کا حامل ثابت ہو رہا ہے۔
معاشرے پر سماجی ابلاغِ عامہ کے اثرات:۔سوشل میڈیا ،یا سماجی ابلاغِ عامہ ہمارے معاشرے کی ہی غمازی کر رہا ہوتا ہے۔آج کا سماجی ابلاغِ ہمارے معاشرے کا مکمل حاطہ کئے ہوئے ہے۔معاشرے کا چاہے جو مسئلہ ہو وہ سوشل میڈیا پر بہر صورت میں زیربحث اآجاتا ہے۔اس میڈیا کے ذریعے کئی لوگ رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔تو کئی لوگ ٹونوں ٹوٹکوں کے متلاشی ہوتے ہیں ۔غرض یہ کہ اس میڈیا پر سماج کے تمام ہی سماجی مسائلِ گردش میں ہوتے ہیں۔ چاہے لہو لعب کی محفلیں ہوں یا شادی غمی کے معاملا ت ہوں ہر سماجی مسئلہ ابلاغِ عامہ کا مسئلہ بن کر عوام کے سامنے گردش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جس بھی قدر سماجی بھی برائیاں سامنے آتی ہیں وہ تمام کی تمام سوشل میڈیا کا حصہ ضرور بنتی ہیں ۔چاہے شادیوں میں فائرنگ ہو یا کسی کے قتل کی واردات،چاہے پولیس گردی ہویا چوری ڈکیتی کی وارداتیں۔ غرض یہ کہ ہر سماجی معاملہ سوشل میڈ یا کی زینت بن جاتا ہے۔جتنے بھی امور اس میڈیا پر نمائش ہوتے ہیں اُن سب کے مثبت یا منفی اثرات ہمارے سماج پر ضرور پڑتے ہیں۔ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے معاشر ے پر سماجی ابلاغِ عامہ کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سیاست اور سماجی ابلاغِ عامہ:۔ آج کی سیاست نے ہمار ے ابلاغِ عا مہ پر نہایت گہرے نقوش مرتب کرنا شروع کئے ہوئے ہیں۔بعض سیاسی کھلاڑی تو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنی ساکھ بنانے میں بھی کامیاب ہوتے دیکھے گئے ہیں ۔ اکثر سماجی ابلاغ عامہِ پر سیاست دان اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں بڑی تیزی سے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور تیزی سے لوگوں کو اپنا ہنوا و ہم آواز بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔مثلاََعمران نیازی نے سماجی ابلاغِ عامہ کے ذریعے کو استعمال کر کے شہرت کی منزلوں کو آسانی کے سا تھ چھو لیا تھا۔جب نواز شریف کو اقامہ پر نکالا گیا تومسلم لیگ ن نے اس حوالے سے سیاست کے میدان میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نا ختم ہونے والا ہنگامہ پرپا کر دیا ہے۔ جس کے اثر سے اس کا ووٹ بینک کسی حد تک برقرار بھی رہا۔دوسری جانب عمران نیازی کے سوشل میڈیاکے بیانئے نے اسے آف شور کمپنی کے ہونے کے اعتراف کے باوجود بھی عدالتی عتاب سے محفوظ رکھا۔آج بھی اپنی سیاسی مہم جوئی میں خاص طور پر یہ دونوں جماعتیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی آگے بڑھارہی ہیں۔مگر عمران نیازی نے ملک کی سیاست میں ایک نیا گالی گلوج کلچر بھی متعارف کرا دیا ہے ۔جو ذی شعور عوامکو تو قابلِ قبول نہیں ہے اس طرح لوگوں میں بد کلامی کا کلچر بھی اسی میڈیا کے ذریعے تیزی کے ساتھ پروموٹ کرانے میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co