ہمارا سوشل میڈیا بہت تیز ہو چکا ہے خاص کر فیس بک ،ٹویٹر اور واٹس ایپ نے جہاں عوام میں شعور پیدا کیا ہے وہیں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے گروپ اس میڈیا کے زریعے اپنے مخالفین کی کردار کشی میں بھی مصروف رہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہر جماعت نے بھاری تنخواہوں پر ایسے کاریگروں کو بٹھا رکھا ہے جو ہر وقت مخالفین کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ اس وقت سائبر کرائم کے حوالہ سے ہماری ایجنساں بھی بہت متحرک ہیں مگر اسکے باوجود آنکھ بچا کر سب کچھ ہورہا ہے اور آج میں سوشل میڈیا پر چلنے والی مختلف دلچسپ تحریروں کو جوڑ کر اپنا کالم ترتیب دے رہا ہوں۔
پانامہ کی شہزادی اور سے محل کا شہزادہ سب سے پہلے تو بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی کے حوالہ سے زیر گردش دو تحریریں ۔ایک طرف پاناما کی شہزادی اور دوسری طرف سوئس اور سرے محل کا شہزادہ عوام کا دکھ کم کرنے کے لیے باقی حصہ داروں کے ساتھ ملکر عید کے بعد اپنا اپنا جلوہ دکھائیں گے جبکہ اسی تقریب کی کسی اور نے یو ںمنظر کشی کی ہے کہ سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا: کیا حال ہے ملک کا؟ توکہا ”بالکل ویسا ہی جیسا جیل میں ہونے والی نماز کا ہوتا ہے اذان فراڈیا دیتا ہے، امامت قاتل کراتا ہے اور نمازی سب کے سب چور ہوتے ہیں”
” ڈاکٹر اور جج ” انڈیا کے ایک ڈاکٹر نے 21 سال پہلے ایک قانونی نقطہ اٹھایا تھا جو ابھی تک حل نہیں ہواسوال یہ تھا کہ ڈاکٹر اور عدلیہ، دونوں پر کنزیومرز پروٹیکشن ایکٹ لاگو ہوتا ہے ڈاکٹر کو انسانی جان بچانے کے لیے لمحوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے جب کہ جج کو فیصلہ تک پہنچنے کے لیے مہینے نہیں سالوں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات مدعی اور مدعا علیہ کی دوسری نسل فیصلہ سننے کو حاضر ہوتی ہے اور فیصلہ پھر بھی کسی اوپر کی عدالت میں غلط ثابت ہو جاتا ہے بہرحال جج بری الزمہ جبکہ ڈاکٹر سے صرف تشخیص صحیح نہ ہو تو پھانسی پہ چھڑانے کو دوڑتے ہیں حالانکہ دونوں پہ ایک ہی ایکٹ لاگو ہے کوئی تو روشنی ڈالے اس دوھرے معیار پہ اور کیاپاکستان میں بھی یہی صورت ہے؟
اراکین اسمبلی اور جاپانی لڑکی۔ اگر آئی ایم ایف سے قرض لینا مجبوری ہے اور ملکی مفاد میں ہے تو ضرور لیںلیکن! کیوں نا اس بار اس قرض کا بوجھ عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کی بجائے یہ کیا جائے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و سینیٹ کے تمام ممبران اور صوبائی و وفاقی وزراء اور وزیر اعظم و صدر ،آرمی چیف اور تمام ججز صاحبان اور تمام بیوروکریٹس سے سوائے اپنی تنخواہ کے تمام تر مراعات واپس لے لی جائیںانکا ہاوس رینٹ،بجلی و گیس بل،ڈیزل و پٹرول خرچ،ماہانہ لاکھوں الاؤنس،ماہانہ ریفریشمنٹ خرچ،گاڑیاں اورپروٹوکول یہ سب کچھ چند ماہ اپنی جیب سے برداشت کرلیں پھر دیکھتے ہیں مہنگائی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے ملکی خسارہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے اور ملکی معیشت پہ قرض کا بوجھ کب تک رہتا ہے؟ جبکہ ہمارے ہاں بھاری تنخواہیں اور مراعات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو ہی دیکھ لیں بلوچستان اسمبلی ممبران کی تعداد 65 تنخواہ 125000 ،خیبرپختواہ اسمبلی ممبران کی تعداد 145 تنخواہ 150000،سندھ اسمبلی ممبران کی تعداد 168 تنخواہ 175000 ،پنجاب اسمبلی ممبران کی تعداد 371 تنخواہ 250000 ،قومی اسمبلی ممبران کی تعداد 342 تنخواہ 300000 ، سینٹ ممبران کی تعداد 104 تنخواہ 400000 اب ان سب کو دی جانے والی رقم کو جمع کرلیں تو کل رقم 3,554,700,000 بن گئی اس میں اسپیکر ڈپٹی اسپیکر وزراء وزیراعلی گورنرز وزیراعظم صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کر سالانہ خرچ 10ارب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
جبکہ عمران خان اکثر اپنی تقریروں میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ہیں ریاست مدینہ میں تو حاکمِ وقت نے اپنی اور مزدور کی تنخواہ برابر رکھنے کے احکامات جاری گئے تھے نظام تو وہ ہے جس میں خلیفہ کے مقرر ہونے پر شوری اکھٹی ہوکرانکی تنخواہ پر مشاورت کرنے لگتی ہے خلیفہ فرماتے ہیں میری تنخواہ شہر کے مزدور کے مزدوری جتنی رکھی جائے شوری سے کوئی جواب دیتا ہے اس پر آپکا گزارہ نہیں ہوگا خلیفہ جواب دیتے ہیں پھر مزدور کی مزدوری بڑھا دو ۔ اور آخر میں رمضان المبارک کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک خوبصورت تحریر ایک جاپانی لڑکی ایک دن کہنے لگی ”یہ جو تم روزہ رکھ کر رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو، اس سے تمھیں کیا ملتا ہے؟”جس پر اسے بتایاگیا کہ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کے دوران جھوٹ نہ بولنا، ایمان داری سے اپنا کام کرنا پورا تولنا، انصاف کرنا اورتمام برے کاموں سے بھی بچنا ہے”یہ سن کر جاپانی لڑکی بولی ”آپ کی تو موجیں ہیں، ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا پڑتا ہے”۔