تحریر : محمد ارشد قریشی ایک بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک بھارت اپنے علاوہ ہر چیز سے خوفزدہ ہے ابھی کبوتروں کا خوف دل سے نکلا نہیں کہ سوشل میڈیا کا خوف سر پر سوار کرلیا، گذشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا کو بند کردیا گیا جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم ڈھانے کی ویڈیوز اور تصاویر دنیا کے سامنے نہ آنے دی جائیں کیوں کہ اس سے بھارتی حکومت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے، پاکستان پر ہر الزام تھوپنے والا بھارت کشمیر کے بچوں تک سے خوفزدہ نظر آتا ہے سوشل میڈیا پر روزآنہ سینکڑوں ویڈیوز اور تصاویر جاری ہوتی ہیں جس میں بھارتی فوج کے کشمیریوں پر ظلم کے ساتھ ساتھ پاکستان سے دشمنی بھی صاف نظر آتی ہے جن میں معصوم بچوں اور بچیوں پر تشدد کرکے پاکستان مخالف نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
بھارت ایک مرتبہ پھر تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئے ناکام اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ ماضی میں جہاں مقبوضہ کشمیر میں عوام کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں تو اب نام نہاد حکومت نے سوشل میڈیا پر ہی پابندی عائد کر دی ہے۔ کیوں کہ سوشل میڈیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دنیا کے سامنے دکھانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ جن سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر اور واٹس ایپ سمیت 16 معروف سائٹس شامل ہیں۔ بھارتی حکام کی جانب سے جاری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کو اگلے احکامات تک معطل رکھا جائے گا۔ بھارتی حکام نے ایک حکم نامے میں 1885ء میں برطانوی دور کے دوران بنائے گئے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ حکومت امن عامہ کے مفاد میں یہ اقدام اُٹھا رہی ہے۔ یہ اقدام اُس وقت اٹھایا گیا ہے جب وادی کشمیر میں طالب علموں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ کشمیر میں کئی ہفتوں سے طلبہ و طالبات بھارت کیخلاف مخالف مظاہرے کر رہے ہیں۔ جس میں اب تک ہونے والے مظاہروں میں 10 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندی کا فیصلہ مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ بھارتی حکام کی جانب سے تمام انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے نام جاری کردہ احکامات میں کہا گیا ہے اگلے ایک ماہ تک فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، قیو قیو، وی چاٹ، اوزون، ٹمبلر، گوگل پلس، بیدو، سکائپ، وائبر، لائن، سنیپ چاٹ، پنٹرسٹ، ٹیلی گرام اور ریڈاٹ کے ذریعے آئندہ ایک ماہ تک وادی کشمیر کے بارے میں کوئی بھی پیغام، ویڈیو یا تصویریں یا کوئی بھی دیگر مواد منتقل نہیں کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ کمپنیوں کو اس حکم نامے کو فوری طور پر لاگو کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
اب یہاں حکم نامے کے مندرجات کو پڑھنے کے بعد تشویش اس امرپر ہے کہ آخر اب بھارت آنے والے ایک ماہ میں مقبوضہ کشمیر میں ایسا کیا کرنے جارہاہے جس کے بارے میں وہ قطعی نہیں چاہتا کہ دنیا کو آگاہی ہو، وادی کشمیر میں بھارت مخالف جذبات جڑ پکڑ چکے ہیں جہاں موجود بھارتی فوجیوں کی تعداد دنیا بھر میں زیادہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت لاکھوں فوجی تعینات ہیں۔ زیادہ تر کشمیری یا تو آزادی کے حق میں ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیر کے مشہور علیحدگی پسند باغی لیڈر برہان وانی کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بھارتی حکومت ان احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے اور انہیں کچلنے کے لیے کرفیو کے نفاذ، موبائل نیٹ ورک کی معطلی اور اخبارات ضبط کرنے جیسے حربے استعمال کر چکی ہے۔ چند روز قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک کشمیری کو بھارتی فوج کی طرف سے گاڑی کے آگے باندھ کر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی بار مظلوم کشمیریوں کو بھارتی فوجی اہلکاروں نے انسانی ڈھال کے طور پر استمال کیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارتی جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری اور پھر سزائے موت کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت کو آگ لگی ہوئی تھی کہ احسان اللہ احسان کے اعترافات میں بھارت کے پاکستان میں حالات خراب کرنے میں ملوث ہونے کی بیانات نے بھارت کے مکروہ چہرے سے ایک نقاب اور ہٹادیا۔معاملہ کی شدت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ نریندر مودی نے اپنے اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مشترکہ دوست اور بھارت میں مشہور کاروباری شخصیت سجن جندال کو وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کے لیئے بھیج دیا جندال کے پاکستان میں داخل ہوتے ہی پاکستانی میڈیا میں ایک بھونچال سا آگیا تجزیے تبصرے اور ٹاک شوز شروع ہوگئے جس میں زیادہ تر بیک ڈور ڈپلومیسی کی طرف اشارہ کیا گیا معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو بذریعہ ٹیوٹ بتانا پڑا کے سجن جندال کا کوئی ساایسی دورہ نہیں بلکہ وہ ایک کاروباری سلسلے میں وزیر اعظم سے ملنے آئے ہیں اور عین ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن اس ملاقات کی ٹائمنگ نے کئی شکوک پیدا کر دیئے۔
اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا کو بند کرکے اور سجن جندال کو پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے بھیج کر بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس عمل سے کشمیریوں کی تحریک کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکا۔