گزشتہ کالم بعنوان ’’مادیت گزیدہ نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے‘‘ پر بہت سارے تاثرات موصول ہوئے۔چونکہ وہ کالم نامکمل تھا اس لیے بعض احباب کی طرف سے مسلسل اصرار ہو رہا تھا کہ اسے مکمل کر دوں۔ سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک پر زیادہ لمبی تحریریں عام طور سے کم پڑھی جاتی ہیں۔ اس لیے کوشش ہوتی ہے کہ تحریریں آسان اور مختصر ہوں۔ لہٰذا نوجوانوں کے تعلق سے مختصر تحریریں مختلف عنوانات کے تحت ان شاء اللہ پیش کی جاتی رہیں گی۔ اس امید کے ساتھ کہ ’’شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات۔‘‘
میری اِس تحریر کے مخاطب وہ نوجوانان ہیں جو علم و شعور رکھتے ہیں۔جن کے اندر کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے،قومی و ملی درد ہے،سیاسی و سماجی بصیرت ہے۔یقیں محکم ، عمل پیہم اور محبت فاتحِ عالم کی شمشیریں جن کے نیام کی زینت بننا چاہتی ہیں لیکن افسوس کہ ان کی صلاحتیں تربیت کے فقدان کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔دل اس وقت خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتا ہے جب مدارس کے فارغین اعلیٰ تعلیم یافتہ دوستوں کو سوشل میڈیا پر اپنی صلاحتیں ضائع کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نام میں بڑے بڑے دینی اداروں کا ’لاحقہ‘ لگائے ہوئے نوجوان معمولی باتوں پر باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ بعض دفعہ تو سوشل میڈیا جیسے ’اوپن پلیٹ فارم‘ پر گالی گلوج تک کی نوبت آ جاتی ہے۔انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ’علمی دلائل‘ دے کر اپنی بالادستی ثابت کرنے کا فن تو سکھایا گیا ہے، محبت سے ’قائل‘ کرنے کا فن نہیں سکھایا گیا ہے۔ اصلاحی گفتگو کرتے ہوئے بھی ان کی زبانیں زہر اگلتی ہیں۔
مثال کے طور پر کسی اختلافی مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے ایک مقرر اس طرح مخاطب تھے’’عقل کے اندھو! تمہاری عقل پر پردہ پڑ چکا ہے، تمہارے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیںچھین لی گئیں ہیں۔ اس لیے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر تم اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہو۔‘‘ اب ذرا سوچیے کہ کیا اس طرح اصلاح ممکن ہے کہ ہم اپنے مخاطب کو عقل کا اندھا، جاہل، بے وقوف اور نادان جیسے القاب سے نوازیں اور امید رکھیں کہ وہ ہمارے’’علم و کمال‘کے سامنے اپنا سر عقیدت سے جھکا دے؟؟ ایسا کبھی ممکن نہیں ہے۔ مختلف مسائل میں اختلافات تو عہد صحابہ اورعہد تابعین و تبع تابعین میں بھی رہے ہیںلیکن اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کا حد درجہ احترام بھی کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے مثالیں بھری پڑی ہیں۔
دینی شعور رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوان ہمارے قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگر وہ اپنی عظمت کو جان جائیں تو زمانے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوںکو صحیح رُخ پر استعمال کریں۔ کتابی باتیں، پرجوش تقریریں اور خوب صورت لفظوں سے تراشی ہوئی تحریریں وقتی طو رپر متاثر تو کر سکتی ہیں لیکن دلوں پر دستک نہیں دے سکتیں۔دوسروں کے دلوں میں اترنے کے لیے پہلے اپنے دل کو خلوص و للہیت کے جام سے رنگین کرنا ہوگا۔اپنی زبان کو محبت کی چاشنی دینی ہوگی۔ اپنے قلم میں خلوص کی روشنائی بھرنی ہوگی۔تب ہماری زبان اور قلم سے نکلے ہوئے الفاظ جادو کی طرح دلوں میں اتر کر اپنا کرشمہ دکھائیں گے۔
نوجوانوں میں بڑھتی بے راہ روی، بے دینی اور فحاشی کو ختم کرنا ہے تو نوجوانوں میں سے ہی اس طبقے کو آگے آنا ہوگا جو بدلتے ہوئے حالات اور اس کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہے۔انٹرنیٹ، موبائل اور اسمارٹ فون کے اس عہد میں پرانی اور گھسی پٹی باتیں منبر و محراب کی دیواروں کے اندر ہی رہ جاتی ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نئی ایجادات کی پہلے تو مخالفت کرتے ہیں پھر بحالت مجبوری انہیں قبول کرنا پڑتا ہے اور ہمارے اس ’قبول ‘ کرنے تک زمانہ ’قیامت کی چال‘ چل چکا ہوتا ہے۔ہم نوجوانوں کے ہاتھ سے موبائل اور اسمارٹ فون نہیں چھین سکتے ہیں۔ ہمیں انہیں بتاناہوگا کہ تمہارے ہاتھ میں جنت اور جہنم دونوں ہے۔ ہمیں ان کی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ موبائل اور اسمارٹ فون ان کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن جائے۔بہت سارے نوجوان موبائل اور اسمارٹ فون کی مدد سے بڑے بڑے دینی، اصلاحی اور فلاحی کام انجام دے رہے ہیں۔ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
اس وقت نوجوانوں میں بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی سب سے بڑی وجہ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہے۔ میںنے اسکول کے طلبہ و طالبات کے والدین سے کچھ سوالات پوچھے۔ جس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ کے بچے کی کون سے عادت آپ کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہے؟ زیادہ تر والدین کا جواب موبائل اور اسمارٹ فون تھا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا بچہ موبائل سے کیا کرتا ہے؟ موبائل پر اس کی دوستی کن لوگوں سے ہے؟ اکثر والدین کا جواب نفی میں تھا۔ یہ رجحان بہت ہی خطرناک ہے۔ شروع شروع میں جب ٹیلی ویژن کا دور آیا توخدشہ محسوس ہوا کہ فلموں اور مخرب اخلاق مناظر کو دیکھ کر نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہوگی۔یقینا ٹیلی ویژن کے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے لیکن ٹی وی کی بڑی اسکرین پر چھپ چھپا کر مخرب اخلاق چیزیں دیکھنا ذرا مشکل تھا۔ موبائل اور اسمارٹ فون کی بدولت یہ ڈر بھی جاتا رہا کہ کوئی ہمیں دیکھ سکتا ہے۔ان حالات میں نوجوانوں کو صرف ’’زندگی بعدِ موت‘‘ کا تصور ہی غلط راستے پر جانے سے روک سکتا ہے۔ورنہ ہماری ہزار نصیحتیں، ڈانٹ پھٹکار، تحریریں اور تقریریں کچھ بھی اثر نہیں کر سکتیں۔
نوجوانوں میں دینی غیرت و حمیت بیدار کرنے کے لیے ہمیں تربیتی اداروں کا قیام کرنا چاہیے۔ ادارہ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مدرسہ اور یونیورسٹی جیسی ایک عمارت بناکر وہاں اخلاقی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم چاہیں تو ہر گھر میں ایک ادارہ بن سکتا ہے لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ ہم خود تو احکامات الٰہی کی خلاف ورزی کرتے رہیں، بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں، وعدہ خلافی کریں، رشتہ داروں اور دوستوں کی شکایتیں کریں اور یہ امید لگائے بیٹھیں کہ ہمارے گھر سے خواجہ غریب نوازؒ، نظام الدین اولیاؒ، سید قطب شہیدؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، حسن البناؒ، سید اسماعیل شہیدؒ، مولانا مودویؒ جیسی نفوس پیدا ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
اسلام کی عظمت رفتہ کو اگر واپس لانا ہے تو نوجوانوں کو پہلے اپنی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘ حاصل کرنا ہوگا اور یہ سراغ صرف اور صرف ایمان باللہ اور محبت رسول ﷺ میں پنہاں ہے۔ ایمانِ کامل اور شدید ترین محبت رسولﷺ کے بغیر ہمارے سارے علم، فکر و فلسفے اور ہماری ساری کوششیں ’’سعیٔ لاحاصل‘‘ ہیں۔ لہٰذا تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کو خلوص و للہیت کے ساتھ میدان کارزار میں اترنا ہوگا۔ ان شاء اللہ مایوسی کے بادل ضرور چھٹیں گے ؎
نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں