اسمارٹ فون اور تھری جی/ فور جی کی بدولت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود دوسری ویب سائٹس تک رسائی اتنی آسان ہوگئی ہے کہ ہمارے روزمرہ معمولات کا حصہ بنتی جارہی ہے جب کہ آج انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے کوئی خاص مہارت درکار نہیں اور صرف چند سال کا چھوٹا بچہ بھی بہ آسانی انٹرنیٹ استعمال کرلیتا ہے لیکن اگر لاپرواہی برتی جائے تو یہی سہولت اور آسانی بہت سی مشکلات کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہےالبتہ سوشل میڈیا اور موبائل ایپس کے بارے میں کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے آپ خود کو ان مشکلوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
مضبوط پاس ورڈ: ای میل یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ میں سائن ان ہونے کے لیے پاس ورڈ ایسا رکھیے جو نسبتاً طویل ہو اور جس میں حروف کے ساتھ ساتھ اعداد بھی استعمال کیے جائیں۔ اس طرح کے پاس ورڈز مضبوط خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ ہیکرز انہیں آسانی سے توڑ نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ کوشش کریں کہ سال میں کم از کم 2 مرتبہ اپنا پاس ورڈ تبدیل کریں ورنہ ہیکنگ کی صورت میں آپ کا پرانا پاس ورڈ لمبے عرصے تک خطرے کا باعث بنا رہے گا۔
شیئرنگ میں احتیاط: سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں بہت ہی نجی قسم کی معلومات نہ دیں۔ اگر کچھ ایسی باتیں ہیں جن سے آپ صرف اپنے دوستوں ہی کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں تو فیس بُک اور انسٹاگرام، دونوں پر یہ آپشن موجود ہے اس کا استعمال کریں۔
محفوظ پروٹوکول کا استعمال: سوشل میڈیا، ای میل اور ایسی دوسری ویب سائٹس HTTPS (سیکیور ہائپر ٹیکسٹ ٹرانسفر پروٹوکول) کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ پروٹوکول ان ویب سائٹس تک محفوظ رسائی کو یقینی بناتا ہے۔ اگر کسی عوامی جگہ پر دستیاب انٹرنیٹ کنکشن سے لاگ اِن کرنے کا ارادہ ہو تو پہلے دیکھ لیں کہ متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈریس میں کہیں صرف HTTP تو نہیں لکھا ہوا کیونکہ اگر ایسا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ غیرمحفوظ نیٹ ورک کے ذریعے اپنی مطلوبہ سروس سے لاگ اِن ہورہے ہیں اور کسی بھی ہیکر کا آسان ہدف ثابت ہوسکتے ہیں۔
سوچ سمجھ کر دوست بنائیے: جب بھی سوشل میڈیا پر آپ کو دوستی کی درخواست موصول ہو تو سب سے پہلے درخواست بھیجنے والے کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی دھوکے باز ہو اور مستقبل میں انٹرنیٹ پر جان پہچان بڑھا کر آپ کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
مدد کی جھوٹی درخواستیں: یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے کسی واقف کار یا دوست کا اکاؤنٹ ہیک کرلیا گیا ہو جس سے آپ کو مدد کے لیے فوری رقم مہیا کرنے کی درخواست دی جارہی ہو۔ ہیکروں کی جانب سے اس طرح کے حملوں کو ’’فشنگ اٹیک‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی کسی بھی ای میل یا پیغام پر جذباتی ہونے کے بجائے پہلے اس فرد سے براہِ راست رابطہ کرکے یہ معلوم کریں کہ کیا اس نے واقعی آپ کو ای میل کی ہے یا نہیں۔ اگر وہ منع کرے تو فوری طور پر اسے پاس ورڈ تبدیل کرنے کے لیے کہیں۔
ضرورت سے زیادہ جاننے کی خواہشمند ایپس سے ہوشیار: غیر معروف اور نامعلوم کمپنیوں کی بنائی ہوئی ایپس اگر انسٹال کرتے وقت آپ سے بہت زیادہ سوالات کریں اور آپ کی کونٹیکٹ لسٹ تک رسائی بھی مانگ بیٹھیں تو ہوشیار ہوجائیں کیونکہ یہ کسی ہیکر کی چال بھی ہوسکتی ہے جو آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرکے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔
پاس ورڈ خفیہ رکھئے: اپنے ای میل/ سوشل میڈیا پاس ورڈز خفیہ رکھیں اور کسی کو بھی ان کے بارے میں نہ بتائیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ کوئی سی بھی دو الگ الگ سروسز کے لیے یکساں پاس ورڈ ہرگز نہ رکھیں۔
زیادہ معلومات نہیں: سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں صرف وہی معلومات دیں جنہیں فراہم کرنا اشد ضروری ہو، بہت ممکن ہے کہ آپ بے دھیانی میں اپنے متعلق کچھ ایسی معلومات فراہم کر بیٹھیں جنہیں استعمال کرکے کوئی ہیکر بہ آسانی آپ کو مالی، جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچاسکے۔
ہر بات نہ بتائیے: سوشل میڈیا پر یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر ہوائی جہاز کے سفر اور خریدی گئی مہنگی چیزوں تک کے بارے میں معلومات شیئر کرارہے ہوتے ہیں۔ یہ معلومات مجرموں اور اغوا برائے تاوان کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کو آپ کی طرف متوجہ کرسکتی ہیں اور آپ کو ان کا اگلا ہدف بناسکتے ہیں۔
آٹو جیوٹیگنگ سے ہوشیار: کچھ سروسز جی پی ایس کی مدد سے آپ کے موجودہ مقام پر نظر رکھتی ہیں اور جیسے ہی آپ اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں وہ خود بخود آپ کی موجودہ جگہ بھی اس میں شامل کردیتی ہیں۔ یہ عمل آٹو جیوٹیگنگ کہلاتا ہے جو حفاظت کے نقطہ نگاہ سے بہت خطرناک ہے۔ اگر کسی سروس میں آٹو جیوٹیگنگ کا آپشن موجود ہے تو اس ڈس ایبل ہی رکھیں۔
اب پچھتاوے کا کیا فائدہ: آپ کا اسٹیٹس ہو یا کوئی تصویر، جو کچھ بھی آپ انٹرنیٹ پر شیئر کراتے ہیں وہ ہمیشہ کسی نہ کسی سرور پر موجود رہتی ہے، چاہے آپ اسے ڈیلیٹ ہی کیوں نہ کرچکے ہوں۔ اس لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کچھ بھی شیئر کرانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں ورنہ بعد میں پچھتانا بھی پڑسکتا ہے۔
حساس معلومات میں احتیاط: اگر آپ کسی کمپنی میں ملازم ہیں تو اپنے کام سے متعلق حساس یا خفیہ معلومات بھول کر بھی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر پیش نہ کریں گا ورنہ آپ اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔