لاہور سے آتے ہوئے جواں سال اسامہ اور اس کا دوست حمزہ بٹ اللہ کو پیارے ہو گئے موقع کے گواہ جو میرے سوشل میڈیا پر دوست ہیں انہوں نے بتایا جب ہلکی بارش ہو رہی تھی ان کی گاڑی میرے پاس سے گزرہ رفتار کوئی سو یا ایک سو بیس ہو گی اور آنا فانا ایک درخت سے ٹکرا گئی اسامہ کائرہ موقع پر جاں بحق ہو گئے اور ان کے ساتھ حمزہ بٹ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔لیکن اپنے پیچھے ماں باپ کے لئے ایک ایسا دکھ چھوڑ گئے ہیں جو ساری زندگی انہیں رلاتا رہے گا۔
قارئین اس وقت کوئی اور بات مناسب نہیں سوائے انہیں ڈھارس بندھانے کے۔کائرہ فیملی سے میرا تعلق پرانا ہے میں قمر صاحب کو تو نہیں جانتا لیکن ان کی فیملی کے بانی حاجی اصغر کائرہ مرحوم سے یاد اللہ رہی ہے۔وہ جب حج کے لئے نوے کے اوائل میں مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان سے ملاقات ہوئی چھوٹے قد کے حج صاحب کا سیاسی قد بڑا تگڑا تھا انہوں نے چودھری ظہور الہی کے گجرات سے سر اٹھایا تھا اور نوابزادے گجروں سے سرادری چھین کر جاٹوں کا مقابلہ کیا۔اللہ پاک غریق رحمت کرے۔میرے مدینہ والے گھر میں احرام باندھتے اصغر کائرہ سے شاہنواز چیمہ نے کہا یار بے نظیر کا شکر ادا کریں جس نے ہمیں حج کرایا حاجی اصغر کا شاندار جواب جو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے انہوں نے کہا چیمہ صاحب کیوں نہ مل کر اس رب اور اس مدینے والے کا شکر ادا کریں جس نے مجھے آپ اور بے نظیر کو پیدا کیا اور ہمت دی کہ اس کے گھر کی زیارت کریں۔میرے لئے لالہ موسی کے گجروں کے سردار کی بات کبھی بھلائے بھی نہیں بھولتی۔یہ وہ دور تھا جب سیالکوٹ کے وریو خاندان کا ستارہ عروج پر تھا اور ان کی میزبانی کا اعزاز بھی کاکسار کو ملتا رہا۔
جوان بچے کی لاش کا بوجھ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ ہوتا ہے اللہ کرے قمر بھائی یہ بوجھ برداشت کر لیں۔اسد کائرہ کے ساتھ ایک خوبرو حمزہ بٹ بھی اس حادثے کا شکار ہو گیا۔میری زندگی میں ایسے کئے حادثات آئے ایک بار جدہ ایمبیسی اسکول کے چار بچے جن میں انجینئر سلطان عالم کا بچہ مدثر بھی دیگر تین دوستوں کے ساتھ جدہ کورنیش کے ایک دائرے میں مڑتی گاڑی کے الٹ جانے سے جان دے دی۔وہ غم شائد ہم تو بھول گئے لیکن ماں نیم پاگل ہو گئی۔اور ایک حادثہ تو سمجھئے گھر میں ہوا ہم جس بلڈنگ میں رہتے تھے اس میں برادرم شاہنواز اور جمیل راٹھور بھی رہتے تھے عید پر بچے گاڑی لے کر طائف گئے اور بد قسمت گاڑی سیل الکبیر روڈ پر الٹ گئی جس میں ہمارے یہ دو بچے اور دو اور اس جہان فانی سے چلے گئے مائیں اور والدین اب تک اپنی اولاد کے لئے تڑپتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ سارے حادثات نوجوان ہی کرتے ہیں۔نوجوان کون انہیں کسی سے پیچھے رہنے سے باز رکھتا ہے اور وہ تیز سے تیز تر کی تلاش میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں پچھلے دنوں اڈالی دینہ کا شاہزیب گجر بھی اپنی گاڑی الٹا بیٹھا اللہ نے اسے بچا لیا۔ہم اپنی زندگی میں آئے دن یہ حادثات دیکھتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ کے بڑی عمر کے لوگ حادثات میں نہیں مرتے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان اس طرح کے تباہ کن واقعات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اللہ پاک ان دو نوجوانوں کو جنت بخشے لیکن جو ان کے والدین پر دوزخ اتری ہے اس پر جتنا غم کا اظہار کیا جائے کم ہے۔
مجھے یہ علم نہیں کہ گاڑی میں بیٹھے ان نوجوانوں نے سیفٹی بیلٹ باندھے تھے یا نہیں۔ماضی میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا بیٹا بھی ایک کار حادثے میں دنیا سے گیا۔جدہ میں ایک ڈاکٹر طوسی ہوا کرتے تھے وہ شاہی معالج تھے اسی بناء پر انہیں ملک خالد نے نیشنیلٹی دے رکھی تھی ۔الجمیح جدہ میں جب سروس ایڈوائزر کی حیثیت سے کام کرتا تھا تو ایک روز وہ میرے پاس آئے بنیادی طور پر وہ وزیر آبادی تھے پاک بھارت جنگ میں ایک عبدہ طوسی شہید ہوئی تھیں ان کے عزیز تھے۔مجھے کہنے لگے بیٹا میرے ساتھ چلو وہ گاڑی دیکھو جس میں میرا بیٹا مارا گیا ہے۔کیا گاڑی کی کوئی فنی خرابی تھی جس نے میرے بیٹے کی جان لے لی۔مدینہ روڈ کلو ٩ کے مرسیڈیز ڈیلر شپ کے ساتھ ہی گلی میں ایک فیلے میں مجھے لے گئے نوکروں سے گاڑی سے کپڑا اتروایا میں کیا رپورٹ دیتا گاڑی کا فرنٹ مکمل طور پر ختم تھا۔میں نے دیکھا اور اور چائے کے دوران ان کو تسلی دی وہ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کے روتے ہوئے کہنے لگے مہندس مجھے لکھ دو میں جنرل موٹرز کو نہیں چھوڑوں گا میں کیا لکھتا انہیں روتا دھوتا چھوڑ کر کام پے آ گیا۔اس طرح کے حادثات روگ بن جاتے ہیں ہاں اللہ کی رضا پر چھوڑ دیں۔
میں اللہ کا واسطہ دے کر جوانوں سے کہاتا ہوں خدا را اگر اللہ نے خیر دے ہی دیا ہے تو گاڑی آہستہ چلائیں۔میں نے زندگی میں بہت سی گاڑیاں چلائی ہیں اوڈی بی ایم ڈبلیو پورش یہ دنیا کی تیز ترین گاڑیاں ہیں اپنے کام کے سلسلے میں ٢٤٠ کلو میٹر کی رفتار سے گاڑی بھی چلائی مگر گاڑی سڑک اور سیفٹی کے تمام پیمانے دیکھ کر۔اس کی حد کوئی نہیں ہے۔مجھے آج وہ سترہ سالہ حاطم بن لادن بھی یاد آیا جو جدہ میں ملک فہد روڈ پر ہر جمعے کو دس بجے ہونے والی ریس میں حصہ لیتا تھا اس روز آندھی اور طوفان تھا اس کی اوڈی ایس ٨ حادثے کا شکار ہوئی اور بن لادن فیملی کا چشم و چراغ گل ہو گیا۔
رفتار کی کوئی حد نہیں اب ماڈرن گاڑیاں فراری اس ھد تک تیز رفتار ہیں کہ صفر سے سو کی سپیڈ میں چار سیکینڈ لیتی ہیں عرب نوجوان اس قسم کی گاڑیوں سے دل بہلاتے ہیں اپنے اسحق ڈار کے بیٹے علی ڈار اور بحریہ کے ملک ریاض کے بیٹے علی ملک کے پاس بھی ایسی ہی گاڑی ہے۔
اللہ نے دولت دی ہو تو رکھیں گاڑیاں لیکن خدا را حادچات سے بچنے کے لئے ہمیشہ سیفٹی بیلٹ باندھیں۔دولت پیسہ ہو تو سیف گاڑی خریدیں جس میں دوسرا دفاعی نظام موجود ہو ایئر بیگ سامنے اور سائیڈ سے بھی ہوں۔میں آٹو موبائل انجینئر ہوں دنیا کی بہترین گاڑیوں کی کمپنیوں میں کام کیا ہے۔یہ موقع نہیں کہ میں گاڑیوں کے بارے میں لیکچر دینا شروع کروں لیکن یہ یاد رکھئے دنیا کی محفوظ ترین گاڑیوں میں والو،اوڈی کا جواب نہیں جرمن گاڑیاں آگے پیچھے ہی ہوتی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر والوو ہے۔
پاکستان کی سڑکیں تیز رفتاری کی متحمل نہیں ہو سکتیں بد قسمتی سے جی ٹی رڈ تو اس لائق ہی نہیں کہ اسی یا سو سے زائد اس پر چلا جائے۔
اس موقع پر نوجوانوں سے یہی کہوں گا کہ آپ صرف اپنے لئے ہیں والدین کی امیدوں کا مرکز ہیں اندازہ لگائیں ان والدین کی حالت جن کے جوان بچے اس دنیا سے چلے گئے کیا ان کا غم انہیں چھوڑتا ہو گا وقت سے پہلے بوڑھا ہوتے دیکھا ہے میں نے انجینئر سلطان عالم کو جمیل راٹھور اور اپنے پیارے بھائی شاہنواز چودھری کو۔
یقینا یہ دکھ بہت بڑا دکھ ہے۔میں ان مائوں سے بھی درخواست کروں گا جو بڑے فخر سے کم سن نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر سیریں کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔اور فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہمارا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ بڑے پچھتاوے ہیں اس شوق کے۔
یقین کیجئے میں نے اپنے بچوں کو اس وقت تک گاڑی نہیں چلانے دی جب تک ان کے پاس لائسینس نہیں آ گیا۔ہمیں اپنے جوان عزیز ہیں اپنے بچے پیارے ہیں بچہ چاہے قمر زمان کائرہ کا ہو یا ابرار چودھری شاہنواز چودھری یا جمیل راٹھور کا ہم اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔موت کا دن معین ہے لیکن میں نے سنا ہے اچھے اعمال اور سعائیں صدقہ اور خیرات مدت توسیع بھی لے دیتے ہیں۔
آج کائرہ صاحب اپنی سیاسی مصروفیات میں مصروف تھے جب انہیں کسی صحافی نے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ آپ کے بیٹے کا حادثہ ہو گیا انہوں نے جبط کیا لیکن جب لالہ موسی اپنوں میں پہنچے تو بندھن ٹوٹ گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دئے۔اولاد شائد نہ جانے کہ باپ کے دل میں ان کے لئے کیا جگہ ہے لیکن باپ جانتا ہے کہ وہ چہرے پر سکون رکھنے کے باوجود اندر ایک سمندر رکھتا ہے اس کے لئے جوان بیٹے کا دکھ پہاڑ جیسا ہوتا ہے۔بچوں کو گاڑی چلاتے وقت یاد رکھنا ہو گا کہ میرے پیچھے مجھ سے جڑے کتنے لوگ ہیں جو اس آس پر گھروں میں بیٹھے ہیں کہ بیٹا کب گھر آئے گا۔
غم کی اس گھڑی میں کائرہ فیملی سے ہم دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں چیئرمین تحریک انصاف اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم آرمی چیف اور ملک کے دیگر بڑوں نے بشمول صدر پاکستان جناب قمر زمان کائرہ سے اظہار تعزیت کیا ہے قوم بھی ان کے دکھ میں شریک ہے اللہ پاک اسامہ کائرہ اور حمزہ بٹ دونوں کو جنت میں اعلی مقام دے آمین چراغ ایک نہیں دو بجھے ہیں