تحریر : شیخ خالد زاہد کسی نے بہت خوب کہا کہ اگر سماجی میڈیا ۱۹۴۷ میں ہوتا تو پاکستان کے حصول کی جدو جہد تحریک پاکستان سماجی میڈیا پر ہی چلتی اور بڑے بلند و بانگ نعرے ہر کسی کی ٹائم لائن پر لکھے ہوتے یا پھر ڈی پی بنے ہوتے ، سڑکیں خالی ہوتیں کوئی شور شرابے کی نوبت نہیں آتی اور سب سے بڑھ کر تحریک بغیر خون خرابے کے چلتی رہتی اور پھر اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کے ہم آج کن حالات میں کہاں ہوتے۔ایسی سوچ سے ایک خوفزدہ کردینے والا ماحول اپنے گرد محسوس کیا ۔ مجھے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نظر آنے لگے ، میری آنکھوں کے سامنے فلسطینی بچے اپنی آزادی پر غاصبوں پر پھینکتے دیکھائی دینے لگے ، مجھے شام میں ہونے والی بربریت سجھائی دینے لگی ، برما کی خون آلود گلیاں میری نظروں میں گھومنے لگیں۔ الحمدوللہ! ہم آزاد ہیں اور ایک آزاد ریاست میں آزادی سے ناصرف سانس لے رہے ہیں بلکہ ہر کام اپنی مرضی سے کر رہے۔
سماجی میڈیا ہر مذہب ، ہر نسل ، ہر زبان بولنے والوں ا ور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کیلئے یکساں رہتا ہے، ہاں کبھی کبھار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے مالکان نے کچھ قدغن بھی لگائیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی شائع کردیں جن سے کسی حد تک اشتعال پہلا مگرکثیر اکثریت سماجی میڈیا پر موجود رہی اور ہے، اس ہی کی بدولت دنیا ایک گلوبل گاؤ ں بنی ہوئی ہے۔ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے نیکی کر اور کویں میں ڈال، اس کہاوت کا تجزیہ کریں تو سمجھ اس جانب سوچنے پر آمادہ نظر آتی ہے کہ دراصل سماجی میڈیا کا بنیادی تاثراسی کہاوت میں پوشیدہ ہے ۔آج جہاں وکی لیکس اور پانامہ لیکس نے کیسے کیسے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے وہیں سماجی میڈیا نے بھی کسی راز کو راز رہنے نہیں دیا آنے والے دنوں میں شائد راز نامی لفظ لغت سے حذف کردیا جائے۔ کوئی راز راز نہیں ہے جسکی بدولت ہماری ذاتی سلامتی تو ایک طرف ملکوں کی سلامتی داؤ پر لگادی گئی ہے۔ اسکی تازہ ترین مثال پاکستان میں حکو مت کا ہونے والا احتساب اور اس کے دوران سامنے آنے والا مواد ہے دوسرا آپ ابھی سماجی میڈیا پر نظر دوڑائیں کچھ نا کچھ تازہ ترین میسر آجائے گا۔
سماج نے ہمیشہ اپنے لئے کوئی نا کوئی ایسی مصروفیت رکھی ہے جس کی مماثلت سماجی میڈیا سے رکھتی ہے ۔ پہلے لوگ ایک دوسرے سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھتے تھے اور نا ختم ہونے والے مباحثے چلا کرتے تھے۔ خواتین پورا پورا ناول یا ڈائجسٹ ایک ایک نشست میں ختم کر لیا کرتی تھیں اور پھر جو پڑھا ہوتا وہ کسی سہیلی کو سنانے کیلئے بے تاب بھی ہوا کرتی اور سنایا بھی کرتی تھیں۔لڑکے کسی نا کھیل میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے تھے۔ کرکٹ کی ہار جیت سڑکوں پر منائی جاتی تھی۔ بڑوں کا خوف ہوتا تھا کچھ کچھ عزت بھی ہوتی تھی۔ خط و کتابت ہوتی تھی ، راز و نیاز ہوتا تھا، کوئی شرم ہوتی تھی حیاء ہوتی تھی۔لوگوں میں لڑائی جھگڑے کا رجحان بھی تھا غرض یہ کہ لوگ ایک دوسرے سے ملا جلا کرتے تھے۔ لوگ آج بھی رشتے ناطوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن اس اہمیت کی شکل تبدیل ہوگئی ہے اور یہ ذمہ داری سماجی میڈیا نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے۔آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں بغیر وقت ضائع کئے ایک دوسرے سے ایسے رابطہ کرسکتے ہیں جیسے کہ سامنے ہی بیٹھے ہوں۔ یادیں جمع کرنے کا اپنا مزا ہوتا تھا اور اس بات کی اپنی خوشی ہوتی تھی کہ جائنگے تو بتائنگے تصویریں دھلوائینگے تو دیکھائینگے مگر آج تو سب کچھ لمحوں میں ہوجاتا ہے۔ ایک انتہائی دل دکھانے والی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کے کام بہت جلدی جلدی کر لئے ہیں اور کر رہے ہیں تو جب یہ کام ختم ہوجائنگے تو ہم کیا کرینگے لگتا ایسا ہی ہے کہ مر جائنگے ۔ ہمیں معلوم ہے قدرت نے ہم سب کو کسی نا کسی خاص مقصد کیلئے دنیا میں بھیجا ہے مقصد پورا ہوتا ہے موت کا پروانا ہوجاتا ہے جیسے کسی کمپنی میں پروجیکٹ ختم ہونے پر واپس نارمل ڈیوٹی پر واپسی کا پروانا ملتا ہے ۔ ہم جلدی جلدی بغیر وقت کو سنبھالے بغیر وقت کی قدر و اہمیت کو سمجھے سب کام کئے جا رہے ہیں۔
سماجی میڈیا نسلوں میں باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کررہا ہے یہ پرانی نسلوں کو آج کی نسل کی ضروریات سے بروقت آگاہی فراہم کر رہا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ اقدار سے آگاہ تو کر رہا ہے مگر برتاؤ کی سہولت میسر نا ہونے کی وجہ سے تربیت کرنے سے قاصر ہے۔پرانے لوگ تو نئی نسل سے اور انکی ضروریات سے آگاہ ہو رہے ہیں مگر پرانے لوگ اپنی چاہ کا کیا کریں۔ سماجی میڈیا پر ہر فردانتہائی مہذب اور معدب بنا بیٹھا ہے اتنی خوبصورت تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر قسم کی برائی سے بہت جلد پاک ہوجائے گا اور دنیا امن کا گہوارا بن جائے گی، مگر حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے یہ سب زیادہ سے زیادہ پسند کروانے کیلئے اور زیادہ سے زیادہ شئیر کرنے کیلئے کیا جاتا یا پھر دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے نہیں کیا جاتا تو عمل کرنے کیلئے نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ سماجی میڈیا سے جڑنا تقریباً ہر فرد کی ضرورت بن چکی ہے ۔ آپ کسی سے کسی بات کے نا بتانے کی شکایت کیجئے جواب سن کر آپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جواب آپ کو جو سننا ہے وہ یہ کہ سماجی میڈیا پر تو بتا دیا تھا اور اتنے تو لائک بھی آگئے تھے۔
زمینی حقائق بہت واضح طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا کہ حالات روزبروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنا اپنا گھر اچھا بناکر اور اسے بہت اچھی طرح صاف ستھرا رکھ کر اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا رہنے کیلئے بہت خوبصورت جگہ ہے تو آپ کو زمین پر آجانا چاہئے۔ سماجی میڈیا سے ہی ہمیں لمحہ لمحہ دنیا کے بدلتے حالات کا علم ہوتا رہتا ہے مگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ تو صرف شام میں ہو رہا ہے یہ تو صرف عراق میں ہورہا ہے یا پھر یہ کشمیر میں ہورہا ہے ، ہمیں اپنی سمجھ کے بند دروازے کھولنے ہونگے ہمیں اپنے ملک کی بقاء کیلئے اپنے گھر اور اطراف پر گھیری نظر رکھنا ہوگی اپنے بچوں میں ایسے حالات سے نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی ۔ یقیناًاب تو نسلوں کو نامصائب حالات سے نمٹنے اور ان میں رہنے کی تربیت دینا ہوگی ۔
سماجی میڈیا کو سماج بطور پیشن گوئیاں کرنے والا سمجھ لیں ۔ حالات و واقعات کا تجزیہ سماجی میڈیا پر نشر ہونے والے مواد کو دیکھ کر لگا لیں اور آنے والے وقتوں کی حکمت عملی مرتب کرلیں اور کم از کم اتنا ضرور سمجھ لیں اور سماجی میڈیا پر بھی پھیلادیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور جو کچھ ملک میں ہورہا ہے یہ ملک کا نجی مسلۂ ہے ہم پاکستانی کسی خارجی دخل اندازی کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔ ہم نے اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔ ہم صرف سماجی میڈیا والے سماج نہیں ہیں۔