تحریر : عبد الغنی شہزاد رائٹرزگلڈ آف اسلام پاکستان کے ممبران کی نشاندہی پر معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر جناب نبی کریم کی شان اقدس میں شدید گستاخی ہورہی جبکہ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے متعلقہ ذمہ دار ادارے خاموش ہیں جو پاکستان کی اسلامی تشخص پر کاری ضرب ہے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا یعنی،فیس بک پر بھینسا نامی پیج کے سبھی کرداروں کو گرفتار کرکے توہین رسالت ایکٹ کے تحت سخت سے سخت سزا دی جائے ، اور اسلام اور ریاست کے خلاف زہر اگلنے والے عناصر کی سر کوبی کرے ، اس زمرے میں چند افراد کو گرفتار کیاتھا بعد میں رہا بھی کیاگیا،معلوم نہ ہوسکا کہ کیا ماجراتھا ؟ …اب چند ہفتوں سے فیس بک پر ”بھینسا Bhensa ”نامی شیطانی پیج جناب نبی کریمۖکی ذات اقدس، ازواج مطہرات اور شعائر اسلام کی شدید گستاخی کر رہاہے جوہمارے لئے بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ناقابل برداشت ہی نہیں بلکہ ناقابل التفات اور ناقابل سماعت ہے … کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کی اساس اور بنیاد اسلام اور کلمہ طیبہ ہے اس سنگین گستاخی پر حکومتی خاموشی اور غفلت ،قانون کو عوام کے ہاتھ میں دینے کے مترادف ہے ، اس لئے قانونی بالا دستی رکھنے والے ادارے مسلمانوں کے اندر فکری اشتعال پیدا ہونے نہ دیں ۔یہی وہ سبب ہے جو ریاست پاکستان میں دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے میں سرگرم ہے اور ملک کو انارکی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔اس لئے اسلام اور ریاست کے اصل دشمنوں کا تعاقب کیا جائے ۔ اس حوالے سے اسلامی صحافت کی علمبردار تنظیم رائٹرز گلڈ آف اسلام پاکستان نے تمام نوجوانان اسلام اور اہل قلم خواتین و حضرات سے گزارش کی کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے ایسے شرپسند عناصر کا تعاقب کرتے ہوئے ایسے تمام پیجز اور آئی۔ڈیز جو کسی بھی قسم کی شرپسندی کا مرتکب ہو رہے ہیں، انہیں رپورٹ کرائیں تاکہ ریاستی قانونی ادارے خود اس پہ کاروائی عمل میں لائے اگر ریاستی ادارے اس پہ نوٹس نہ لیں تو عوام خود قانون کو ہاتھ میں لینے پہ مجبور ہوجائیں گے جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ،اس لئے قانونی ادارے جلد ان کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اور بھینسا نامی پیج اور اس جیسے دیگر پیجز جن پہ گستاخانہ مواد موجود ہے … توہین رسالت کے حوالے سے تو واضح قانون موجود ہے۔
تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 سی (295ـc)کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے ۔اس کے تحت “پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی سزا عمر قید یاموت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔” اب بات عملددرآمد کی ہے ، یہ کونسے عناصر ہیں جو مسلمانوں کی مقدس ترین ہستیوں کی توہین کرکے انہیں اس راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر مسلمان آخر حد تک جاسکتا ہے … ممتاز قادری کی مثال موجود ہے … اب توجہ طلب موضوع یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے میں نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا کا انتہائی غلط استعمال بھی ہے ،مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف فریق مخالف کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ہوتا ہے ۔ متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں۔
سوشل میڈیا پر آپ کسی کے خلاف جو چاہے لکھیں۔ کسی کو گالی دیں، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ہماری حکومت نے ایسے افراد کی گرفت کے لیے کوئی قانون سازی کی ہے اور نہ ہی حکومتی ذمہ داروں نے کوئی ایسا فلٹریشن سسٹم لگایا جو اسلام مخالف، فحش اور دوسرے بیہودہ مواد کو روک سکے ۔ سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دنیا میں رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی سے اگرچہ سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے بل منظور کیا جاچکا ہے ، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شایع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کے لیے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے ۔ اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے ، کیونکہ ہمارے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ قانون کی کمزوری کی وجہ سے اسے ملحدین اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے شعائر اسلام، ناموس رسالت کی توہین اور مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں تشکیک میں مبتلا کرنے کے لیے بلاروک ٹوک استعمال کیا جارہا ہے ۔ ذرایع کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے گروپس کی تعداد سو سے زاید ہے ،جن میں سے اکثر کا تعلق ”فیس بک“ سے ہے ۔یہ لوگ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستانی نیٹ ورک کی دنیا میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ان کی بلاگنگ کا مقصد شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلانا ہے ۔ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی نیٹ دنیا میں اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے لوگوں کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے یہ لوگ اللہ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر علوم دین سے ناواقف مسلمانوں کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر شعائر اسلام اور اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب افراد میں کئی معروف نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق فیس بک پر موجود نسیم کوثر نامی خاتون ایک عرصے سے اپنی اصلی شناخت کے ساتھ اللہ تعالیٰ، دین اسلام اور قرآن مجید کی اہانت کر تی رہی ہے۔
جب اس نے ایک گروپ چیٹنگ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شام میں گستاخی کا ارتکاب کیا تو فیس بک صارفین کی بڑی تعداد نے گستاخی کی مرتکب نسیم کوثر کے خلاف انسداد توہین رسالت ایکٹ 295ـC کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد اگلے ہی دن ملک بھر میں متعدد مقامات پر نسیم کوثر کے خلاف اندراج مقدمہ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ صورتحال دیکھ کر نسیم کوثر نے پینترا بدلا اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنی آئی ڈی سے تمام گستاخانہ مواد ہائیڈ کر نے کے بعد یہ اعلان کیا کہ گستاخی پر مبنی کمنٹ اس نے نہیں کیا، بلکہ یہ اس کے نام سے بنائی گئی ایک جعلی آئی ڈی سے کیا گیا ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی نامعلوم افراد کی جانب سے ایک منظم اور مربوط منصوبے کے تحت الحاد، لادینیت اور نسیم کوثر کی گستاخانہ حرکات کے خلاف سرگرم افراد کے ناموں سے جعلی آئی ڈیز بنا کر شعائر اسلام، اہانت رسول کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک مقصد نسیم کوثر کے مقدمے کو کمزور کرنا اور دوسرا مقصد الحاد کے خلاف سرگرم افراد کو بدنام کر کے جذباتی مسلمانوں کے غم و غصے کا رخ ان کی طرف موڑنا ہے ۔ منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر الحاد اور لادینیت کے خلاف علمی و عقلی بنیاد پر محاسبہ کرنے والے معروف اسلامسٹ بلاگر اسکندر حیات بابا کے نام سے جعلی اکا?نٹ بنا کر اس سے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا گیا اور دیگر متعدد اسلامسٹ بلاگرز کے نام سے جعلی اکا?نٹ بنا کر نبوت کے جھوٹے دعوے کی تصدیق کے ساتھ شان رسالت میں گستاخی اور اسلام کے خلاف انتہائی دل آزار اور اشتعال انگیز خرافات نشر کی گئیں، یہ تو سب کو معلوم ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے ایسے گستاخوں کے خلاف عبرت ناک کاروائی کی ضرورت ہے حالانکہ گزشتہ دنوں دبئی پولیس نے فیس بک پر توہین رسالت اور توہین اسلام کرنے والے ہندوستانی شہری کو دبئی ائر پورٹ سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا۔تفصیلات کے مطابق دبئی کریمنل کورٹ میں ہندوستانی شہری کے کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے ۔ ملزم نے اپنے فیس بک اکا?نٹ پر اسلام اور توہین رسالت کی تھی دبئی سائبر کرائم کی جانب سے ملزم کے خلاف تمام تحقیقات مکمل کی جاچکی ہے ۔ ملز م نے 7نومبر 2016کو اپنے فیس بک اکا?نٹ پرتوہین رسالت کا مرتکب ہواتھا۔توہین رسالت کے بعد ملزم نے اپنے وطن واپس بھاگنے کی کو شش کی تھی ۔مگر عین موقع پر گرفتار کر لیا تھا۔ملزم کے موبائل فون سے اکا?نٹ سے ایکٹویٹ ہو ا تھا ۔تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے خود سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا تھا ۔عدالت نے کیس کی کارروائی 13مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔ اسی طرز پر کائنات کی مقدس ترین ہستیوں ،شعائر اسلام ،صحابہ کرام ، امہات المومینین کی توہین کرنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والوں کے خلاف فوری کاراوئی کی ضرورت ہے …امید ہے اس پر دیگر اسلامی ومذہبی جماعتیں آواز بلند کریں گی۔