کیا آپ تیار ہیں؟

Woman

Woman

تحریر : شاہ بانو میر

سوشل میڈیا پر بے شمار پوسٹس میں سے بہترین پوسٹ

“”بکری نے آزادی مانگی
بھیڑیے نے سب سے پہلے ہاں میں ہاں ملائی “”

عورت اور مرد کائنات ارضی کے دو بنیادی کردار
چاند سورج زمین آسمان فرشتے
ہر مخلوق اس کی ہئیت ساخت کچھ بھی ہے
اللہ کے طے کردہ نظام کی تابع ہے
کائنات اور اس کا پیچیدہ نظام بنانے کا مقصد
اللہ پاک کی ذات کی شناخت اور خالق کی پہچان تھی
آج دنیا کے بڑے طاقتوروں نے ہمیں
اللہ سے غافل کر کے
اپنی شناخت اور پہچان کے شیطانی کھیل میں الجھا دیا
ہزاروں سال پہلےایک عورت لق و دق صحرا میں
اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ تنہا ہے
قلیل خوراک اور محدود پانی ختم ہو جاتا ہے
حضرت ھاجرہ کی ممتا کی تڑپ
پانی کی متلاشی ہے
کہ
پیاسے اسمعیٰل کا حلق تر ہو
اس ماں کی تڑپ کی ایسی قبولیت
اللہ کے حضور ہوئی
کہ
تحفے میں پیارے نبيﷺاور اللہ کا قرآن منشور انسانیت عطا ہوا
ماں کا یہ تڑپنا رکن لازم قرارپایا
سعی
قیامت تک فرزندان توحید کو
ماں کے قدموں تلے جنت
کا اصل سبق سکھا دیا گیا
ماں کیسے بیتابی سے دوڑی تھی
ہر فرزند پر لازم کیا گیا وہ بھی سعی کے دوران بھاگے گا
کہ
وہ محسوس تو کرے ماں کی محبت

آج
اس ماں کو گھر میں نہیں رہنا
سڑکوں پر رلنا ہے
مجہول انداز میں جو اسکی تعظیم کو منہا کر رہا ہے
پاکستان میں معاشرہ تیزی سے بدلایا جا رہا ہے
خوبصورت خالق کی تخلیق
دنیا
اور
اسکی رونق
مرد و زن
طے شدہ ذمہ داریاں
عورت
اپنے گھر اور بچوں کو سنوارے گی
مرد ان کا ذمہ دار
جو
ان کیلئے اخراجات کی مد میں محنت کرے گا
اور
گھر چلائے گا
جسمانی ساخت عورت کی
اور طرح کی نزاکت سے ترتیب دی گئی
اور
سوچ ارادے اور جرآت بڑے بڑے کاموں کیلئے
مردوں کو الگ انداز سے اللہ نے تخلیق کیا
عورت نے گھر میں
اپنی اولاد کو پال کر اس کے خمیر میں
محبت احساس اور ذمہ داری ڈالنی تھی
آج کہا جا رہا ہے
کہ
عورت کو اجازت دی جائے
وہ جو چاہے کرے
باہر کا کام اس کیلئے بڑہی ہوئی
خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے
تعیشات اتنی زیادہ مقدار میں
ترقی پزیر ممالک میں پھینک دی جاتی ہیں
کہ
دولت تو مافیا سمیٹتا ہے
لیکن
گھر برباد ہوجاتے ہیں ان کے حصول کیلئے
معاشرے میں بڑہتی ہوئی غیر منصفانہ تقسیم میں
برابری کی کوشش میں
دین ایمان
سب بھول کر لوگ بد دیانتی پر آجاتے ہیں
یوں
گھروں میں حرام کمائی کی آمد شروع ہوتی ہے
مرد سکون کا سانس لیتا ہے
کہ
اب اسے طعنہ زنی نہیں کی جاتی
لیکن
جب کیچڑ سے پاؤں لتھڑے ہوں
اور
قالین پر جوتوں سمیت چلا جائے گا
تو
لاکھ صفائی کریں
اس کی تہوں میں چھپی
مٹی کے باریک ذرات ختم نہیں کر سکتی
اسی طرح
بات حرام کمائی
اور
اس سے حاصل سہولیات سے آگے بڑہی
ناجائز اخراجات بڑہے تومافیا سے ملاقاتیں ہوئیں
آزاد خیال لوگ ملے آزادی رائے کی خوبیاں پتہ چلیں
تو
عورت نے سوچا
وہ اپنا وقت بچوں کی چیخ و پکار میں کیوں ضائع کرے
اسے اپنی قابلیت کا اندازہ
ملالہ کی طرح بیرونی آقاؤں نے دیا
خاتون خانہ چراغ خانہ سے شمع محفل بنیں
اور
سامنے موجود مرد حضرات کی
بے شمار تعریف کے پُل انہیں اور جرآت دیتے گئے
کہ
ان جیسا لائق فائق تو شائد ہی کوئی پیدا ہوا ہو
حقیقت حال یہ ہے
کہ
عورت سے اسکی نسوانیت چھین کر
کھوکھلا وجود
اپنے بچوں سے بیزار اور شوہر سے اوازار ہوگیا
باہر نکل کر بڑے بڑے کام اور بڑے بڑے نام
اسکی ذہنی تسکین کا ذریعہ بننے لگے
اب آئیے ذرا ان ممالک کی طرف
جہاں یہ نظام آخری حدوں پر آگیا
وہاں خواجہ سرا جیسے مرد پائے جاتے ہیں
کیوں؟
اس لئےکہ
ان کو بچپن میں ماں نہیں ملی
اڑھائی سال سے اس چھوٹے کمزور بچے کو
نظام میں چھوڑ دیا گیا
نظام نے
اسے سکول کالج یونیورسٹی میں تعلیم دی
لیکن
اڑہائی سال سے وہ اپنی جنگ خود لڑتا رہا
وہ مرد آہن نہیں بنا
ماں کی گود احساس ہمدردی ندارد تھا
تربیت نہیں ہوئی
اچھا برا کیا ہے
کیسے اٹھنا بیٹھنا ہے
کیسے بات چیت کرنی ہے
یہ ذمہ داری استاد نہیں لیتے
وہ اپنی تنخواہ کے حساب سے نصابی سرگرمیاں کروانے کے ذمہ دار تھے
جس بچے کو جو اچھا لگا
ماں کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے
وہ اسی سانچے میں ڈھل گیا
کانوں میں بالیاں
ناک میں نوز پن
اور
گلے میں یہ لمبا دوپٹہ اوڑھ لیا
یہ ہیں وہ بچے
آج ہم ایسی نسل کی بنیاد ڈال رہی ہیں
آزادی اور حقوق کے نام پر
آفس سے واپسی پر بچے کو لینے والی عورت
گھر واپسی پر
بچے کی طرف سے سکون اور خاموشی کی متقاضی ہے
اس کے بچے کے پاس دنیا کی ہر نعمت ہے
جو نہیں ہے
وہ ہے
ماں اور اسکے نہ ہونے سے
احساس
بے حس نظام سے تنہا لڑتا ہوا بڑا ہونے والا یہ بچہ
بہترین ملک کا شہری ہوتے ہوئے بھی ادھورا ہے
تربیت ماں کر سکتی تھی تعلیم تو مل گئی
تربیت کا خلا پُر نہیں ہو سکتا
نظام میں چھوٹے سے بڑا ہونے تک وہ
اب صرف
اپنے معاشرے کا
ایک عضو ہے
جس میں وہ رہ رہا ہے
اس کیفیت نے اسے عدم تحفظ کا شکار بنا دیا
چڑچڑا پن اور بد مزاجی بد لحاظی ذات کا حصہ بن گئی
پاکستان میں اس نظام کی ابتداء مانگ رہی ہے
جو عورت
وہ سن لے
کہ
اس نظام کی انتہاء ہم دیکھ رہے ہیں
یہ نظام جس میں چاشنی محبت احساس اور تمیز ہٹ جاتی ہے
ماں کے ہٹنے سے
یہ نظام آپ کو چاہیے
تو
ایک کام کیجیے
یہ نظام مکمل نہیں ہوتا
جب تک آپ اس کو مانگتے ہوئے
ملک میں اولڈ ہومز بنانے کی شرط نہ ڈالیں
ایسے بچے جو ممتا سے محروم بچپن گزارتے ہیں
وہ نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ ساتھ صرف سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں
اور
جدید تیز رفتار سسٹم آپ کے بڑہاپے میں آپ کے ساتھ نہیں ہے
سسٹم
صرف اس کے ساتھ ہے
ہمت ہے
جوش ہے
اور
جسم میں طاقت ہے
جہاں
طاقت ختم ہوئی
جسم کو بیماریوں نے نچوڑنا شروع کیا
وہیں اس نظام میں
گھر کے بڑے بوجھ متصور ہوتے ہیں
ان کے مستقبل کی ترقی کیلئے نقصان دہ ہے
لہٰذا
اس نظام میں
گھر کے تمام بڑے اولڈ ہومز پہنچا دیے جاتے ہیں
جبکہ
میرے دیس میں تو
ایسے بیٹے ہیں
جو ماں بیمار ہو تو دعاؤں کی چھاؤں کیلئے
ایسی خدمت کرتے ہیں
کہ
بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں
میری عزیز ہم وطنو
سوچو
آج بچے کو اپنا وقت دینا ہے
تو
کل بڑہاپے میں ان سے ان کا وقت مانگا جا سکتا ہے
حق جتایا جا سکتا ہے
آج اگر خود کو اتنا مصروف کر لیا
کہ
جزبے سرد اور احساس مردہ ہو گیا
تو کل
اس ترقی کی آخری حتمی منزل صرف اور صرف
اولڈ ہومز ہیں
کیا آپ تیار ہیں؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر