گو کہ جلسوں جلوسوں میں شرکا کی تعداد کو مقبولیت کا پیمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس سوچ کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ لوگ جس لیڈر کے جلسے میں از خود جا رہے ہیں وہ ان کے دل کی بات کر رہا ہے ،زبردستی لائے گئے لوگ تو شائد کسی جبر و لالچ میں آتے ہونگے ۔ابھی ڈھائی ماہ پہلے تبدیلی مخالف لوگوں کو یہ گلہ تھا کہ ان دھرنوں میں چار پانچ سو لوگ ہوتے ہیں وہ بھی کھیل تماشہ دیکھنے آتے ہیں جب ان کے موبائلوں کی بیٹریاں ختم ہونگی یہ بھی اڑنچھو ہو جائیں گے پر کرنی خدا کی برگر بچوں نے تو کیا اڑنچھو ہونا تھا ایلیٹ کلاس کی بچیوں نے بھی حاضری دینا شروع کر دی وہ بھی اپنی مائوں، پھوپھیوں، دادیوں ،نانیوں سمیت اور ان کے راستے کوئی مشکل نہیں روک سکی ۔دھرنوں نے باقائدہ تحریک کا روپ دھارا تو طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کے ہوش اڑ گئے ۔نون لیگ کا ہر چھوٹا بڑا لیڈراس مہم پر لگ گیا کس طرح اس تحریک کو سبوتاژ کرنا ہے
۔پہلے تو دودھ سے بالائی اڑی میاں صاحب کے نامی گرامی پہلوان سعد رفیق،خواجہ آصف،عابد شیر علی،طلال چودھری،احسن اقبال،رانا ثنا اللہ اور کئی دوسرے روزانہ میڈیا کے سیاسی اکھاڑے میں اترتے اور انقلابیوں کے ہاتھوں ناک ائوٹ ہوتے جب اس محاذ پر ناکامی ہوئی تو کہا یہ غیر مہذب ہیں گالی گلوچ کرتے ہیں حالانکہ سوشل میڈیا پہ لیگیوں کے ہوش ربا پیجز بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں رج کے عمران خان کی کردار کشی کی جاتی ہے جتنی محنت یہ دوسروں کے عیوب تلاش کرنے میں کرتے ہیں اتنی محنت ملک کے حالات ٹھیک کرنے میں کرتے تو لوگ از خود ان کی حمایت میں آ جاتے لیکن بنیادی باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں ساری توجہ اپنے کاروبار پر ہے یا مخالفین سے دھینگا مشتی پر، زرداری نے پانچ سال ملک لُوٹا ایک پیسے کا کام نہیں کیا
جو قوم کی فلاح میں جاتا ہو ۔بینظیر انکم کارڈ سکیم نے اچھی بھلی محنت کر کے کماتی خواتین کو بھکاریوں کی صف میں لا کھڑا کیا کہاں ہے آج وہ سکیم ؟اربوں روپے ڈکار گئے۔مریم نواز کو دئیے گئے سو ارب جو یوتھ لون سکیم کی مد میں دئیے گئے تھے کس کس کو ملے؟ان کا حساب کون دے گا ؟ان کو اگر دھرنوں سے تکلیف ہے تو عوام کو اس بات کی تکلیف ہے کہ ہمارے دئیے ٹیکسوں سے عیش کرنے والے ہمیں کیا دے رہے ہیں ؟ لاوارثوں کوکفن دفن تو ایدھی صاحب بھی دے رہے ہیں اور بہت سے بے سہارا لوگوں کو پال بھی رہے ہیں ،اگر سڑکیں اور پلیں بنانا کارنامہ ہے تو ملک ریاض صاحب یہ کام کہیں بہتر طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں
بحریہ ٹائون ز میں قلیل رقم کے عوض وہاں کے مکینوں کو بہترین سہولتیں ملتی ہیں۔صفائی ستھرائی، بجلی کی فراہمی،صاف پانی صاف خوراک اور وہ بھی مناسب قیمت پر ۔اس کے علاوہ لاکھوں لوگ اسکے فلاحی کاموں سے بھی فیضیاب ہو رہے ہیں لیکن حکومت جو اس ملک کے کروڑوں شہریوں سے اربوں روپے ٹیکس وصول کرتی ہے وہ ان کو بنیادی سہولتیں بھی نہیںدیتی ،عوام کے حقوق پورے کرنے سے قاصر ہے ۔ عوام کے حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں (١)اخلاقی حقوق (٢) قانونی حقوق۔۔۔ہم مانتے ہیں ہمارا اسلامی معاشرہ بے پردگی اور مخلوط محفلوں کو پسند نہیں کرتا لیکن اسلام علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے اور اس میں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں ۔تو ہمارے حکمرانوں نے خواتین کی تعلیم کے لیئے کتنی ویمن یونیورسٹیاں بنائی ہیں ؟ادھر جنوبی پنجاب میں ایک بھی ویمن یونیورسٹی نہیں ہے
مشرف دور میں اسلامیہ یونیورسٹی اور بہائو الدین ذکریا یونیورسٹی میں کچھ شعبے ضرور قائم کیئے گئے لیکن اعلٰی تعلیم کی خواہش مند بچیوں کی ضروریات کے لیئے بہت ناکافی تھیں نتیجتاً کافی بچیاں ادھورے خواب لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں اور کچھ لاہور کے مخلوط اداروں میں داخلہ لے لیتی ہیں ۔جہاں طرح طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں اور والدین کو مولانا فضل الرحمن جیسی ذہنیت رکھنے والے لوگوں سے قسم قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔مولانا اپنی قوم کی بچیوں کو مجرہ باز کہہ کر گالی تو دیتے ہیں لیکن کیا انہوں نے اپنے لیئے ہر حکومت سے سوائے مرعات اور وزارتیں لینے کے کوئی اخلاقی زمہ داری پوری کی ؟کوئی ایک کام ایسا بتا دیں جو انہوں نے ملک و قوم کی بہتری کے لیئے کیا ہو ؟ جو شخص اپنی وزارت کے لیئے پریشر گروپ بنا سکتا ہے وہ قوم کی بچیوں کے لیئے الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیئے حکومتوں کو قائل کیوں نہ کر سکا؟کیا کبھی ہمارے ان علمائے کرام نے ایسی باتوں کا نوٹس لیا یا فتویٰ دیا جن کو سن کے انسانیت بھی شرما جاتی ہے ۔پچھلے سال کی بات ہے
لاڑکانہ کے قبرستان سے تین بندے پکڑے گئے جو جوان عورتوں کی تازہ قبریں کھود کر ان کے بال کاٹتے اور بیچتے دوران تفتیش انہوں نے بتایا وہ تین سال سے یہ کام کر رہے ہیں ملتان کا ایک تاجر تین ہزار روپے کلو یہ بال خریدتا ہے (یہ خبر خبریں ملتان میں چھپی تھی شائد کسی کو یاد ہو ) کیا کوئی مولانا اس پہ کچھ بولا ؟نہیں ۔۔ کیونکہ یہ ان کے نزدیک بہت معمولی باتیں ہیں ۔ہر ماہ سینکڑوں معصوم بچیاں درندگی کا نشانہ بنتی ہیں کسی عالم کو مذہب کی بے حرمتی یاد نہیں آتی نہ کوئی فتویٰ آتا ہے ۔لیکن دھرنے میں شامل معزز فیملیز کی بچیوں پر جھٹ سے فتویٰ لاگو ہو جاتا ہے ۔جب ملک بھر کے اسکولوں میں بچیاں دو رویہ کھڑے ہو کر ان ایم این ایز ایم پی ایز یا دوسرے حکومتی زعما کا استقبال کرتی ہیں انکی ہوس بھری نظروں کا سامنا کرتی ہیں،ڈانس کرتی ہیں ٹیبلو پیش کرتی ہیں تب بھی کوئی فتویٰ نہیں آتا ۔گھروں میں شادی مہندی کے فنکشنز پر جو شریفوں کا مجرہ ہوتا ہے اس پر بھی کوئی چوں نہیں کرتا بلکہ رانا ثنا اللہ بڑے فخر سے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے ساتھ بیٹھی (ننگے سر ) بیٹی کا تعارف کراتے ہوئے فرما رہے تھے
میری بیٹی ڈانس بڑا اچھا کرتی ہے اپنی شادی پہ بہت اچھا ناچی تھی ۔۔کیا وہ مجرے کے زمرے میں نہیں تا ؟اگر اسلام پہ چلنا ہے تو پھر اسلام تو معاشرے کے حقوق کی بہت بڑی زمہ داری حکومت اور علماء پر ڈالتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عمر فرات کے کنارے مرنے والے بھوکے کتے کی زمہ داری نہ لیتے۔ راتوں کو رعایا کے گھروں پر کمر پہ لاد کے اناج نہ پہنچاتے۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ بنتے ہی اپنی دکان نہ چھوڑتے یہاں تو حکمرانی ملتے ہی بزنس ایمپائرز کھڑی ہو جاتی ہیں ،میٹر ریڈر اور سینما کی ٹکٹیں بیچنے والے اربوں کے اثاثوں کے مالک بن جاتے ہیں کوئی ان کا گریبان نہیں پکڑتا کہ اختیارات کا غلط استعمال کیونکر کیا گیا۔حالانکہ قرار داد مقاصد کو ١٩٧٣ کے آئین کے ابتدائیہ میں شامل کر کے یہ تسلیم کیا گیا کہ کل کائنات کا حاکم مطلق اللہ تعالےٰ ہے
اقتدار اعلیٰ کا مالک وہی ہے ۔مسلمانان پاکستان اللہ تعالےٰ کے تفویض کردہ اختیارات کواس کی مقدس امانت سمجھ کر اس کی مقرر ہ حدود میں رہتے ہوئے ہی استعمال کریں گے ۔۔۔۔۔کتنوں نے یہ حدود قائم رکھیں ؟ یہ حدود سے تجاوز کا ہی نتیجہ تھا جو سانحہ ماڈل ٹائون کا سبب بنا ۔اگر یہ سانحہ نہ ہوتا تو یہ دھرنے بھی نہ ہوتے ۔مقتولین کو انصاف مل جاتا تو ان کے لواحقین ایف آئی آر کٹوانے کے لیئے سڑکوں پر نہ آتے جو آج بھی ہنوز سوالیہ نشان ہے ۔کہ ملک کی عدلیہ کورٹ کی دیوار پر کپڑے لٹکانے کا نوٹس تو فوراً لے لیتی ہے چودہ انسانوں کے قتل کا نوٹس نہیں لیتی ۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ابھی ایک اور بنیادی بات کی طرف آتے ہیں۔ہر ٹی وی چینل پر ناچ گانا تو خیر ہو ہی رہا ہے۔ لڑائیاں مار کٹائیاں بھی روز ہوتی ہیں جو ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں لیکن کسی نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کارٹون نیٹ پر دوپہر بارہ بجے تک ہندو مذہب اور ہندو کلچرکو پروموٹ کرنے والے کارٹون دکھائے جاتے ہیں PoGo جو انڈین چینل ہے وہ انڈین کلچر کو بچوں کے ذہنوں میں راسخ کر رہا ہے کیبل آپریٹرز کے پاس اور کوئی کارٹونز ہیں ہی نہیں مائیں بھی مجبور ہوتی ہیں کہ بچوں کو کارٹونز دیکھنے کو بٹھا دیا یہی عمر ہوتی ہے جب بچہ صرف وہی سیکھتا ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے جو اسے سمجھایا جاتا ہے لیکن مائوں کے پاس اب ٹائم ہی نہیں ۔پہلے ایک کماتا تھا دس کھاتے تھے
Imran Khan
اب سب ملکر کماتے ہیں اور پوری نہیں پڑتی ۔صرف بجلی کے بل بھرنے کے لیئے خواتین جاب کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی کا پیٹ بھرنے کے لیئے لوگ رشوت لیتے ہیں حرام کھاتے ہیں تو اولاد کو بھی حرام کا نوالہ دیتے ہیں اللہ کی رحمت سے دور کیسے نہ ہوں ۔کیا ہمارے علماء نے کبھی اس مسلئے کو سوچا ؟ اٹھایا ؟کبھی انہوں نے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر توجہ کی ؟خیبر پختونخواہ کا نصاب تو انہیں جلدی نظر آ گیا ہے تاکہ عمران خان پر تنقید کی جا سکے کبھی دوسرے صوبوں کا پڑھایا جانے والا نصاب چیک کیا کہ کیا کچھ اس میں سے حذف کیا جا چکا ہے اور کچھ نہیں تو دانش اسکولز کا ہی چیک کر لیں جہاں سے نواز حکومت کے دانشور اور سکالرز تیار ہو کے نکلنے ہیں ۔کیا یہ بنیادی زمہ داری حکومت کی نہیں جو ملک بنا ہی ایک نظریے کے تحت تھا اس نظریے کی حفاظت کس کی زمہ داری ہے؟
کیایہ ملک حکمرانوں کی جاگیر ہے کہ جس کو چاہیں بخش دیں جیسے چاہیں لوٹیں ۔اسلام میں تو سربراہی اعزاز نہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کی اللہ کے ہاں سخت بازپرس ہوگی ۔لیکن یہاں جو کرسی کو چمٹتا ہے زلیل ہوکر اترتا ہے یا مر کر۔۔۔اس لیئے کہ یہ کرسی جوڑ توڑ اور عیاری مکاری سے حاصل کی گئی ہوتی ہے اس کے نیچے بڑا گند چھپا ہوتا ہے ۔جو کرسی چھوڑنے کے بعد منظر عام پر تا ہے اور پھر جو پروٹوکول ہے ۔وی آئی پی کلچریہ بھی انکو کرسی سے چپکائے رکھتا ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ بادشاہی جس کا نام انہوں نے جمہوریت رکھ چھوڑا ہے یہ تو مغل بادشاہوں کو شرماتی ہے وہ اپنی چہیتی ملکائوں کے مقبرے بنواتے تھے یہ زندہ لوگوں کو مار کے اپنے محل تعمیر کرتے ہیں۔ اپنے شہزادوں ،شہزادیوں کو اربوں روپے کھیلنے کے لیئے دیتے ہیں۔
حال ہی میں شہزادی مریم نے سو ارب سے کھلواڑ کیا ہے ۔اور شہزادے بلاول نے کراچی کے جلسے میں سندھ حکومت کا پیسہ برباد کیا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ئی ایم ایف سے مزید یکمشت قرض لیا جا رہا ہے تا کہ عیش و عشرت میں کمی نہ آئے۔۔دھرنوں نے عوام کو یہی شعور دینے کا جرم کیا ہے کیونکہ حکمرانوں کے عیش و عشرت اور عوام کی اذیتوں کے اس سفر میں خواتین براہ راست نشانہ بنی ہیں اس لیئے وہ جوق در جوق دھرنوں میں شریک ہوتی ہیں ۔میں ج ہی بجلی کا بل دیکھ رہی تھی عام آدمی تو اب ان بلوں کے مندرجات سمجھ ہی نہیں سکتا بس چار پانچ ہندسوں سے تجاوز رقم پڑھتے ہی چیخ نکل جاتی ہے کہ یونٹ لکھے ہوتے ہیںچھ یا پچاس یا حد دو سو اور رقم ہزاروں میں ہوتی ہے پتہ نہیں کتنی قسم کے ٹیکسز لگے ہیں ،جبکہ ابھی پچھلے مہینے وزیر اعظم صاحب نے مژدہ سنایا تھا جو اوور بلنگ ہوئی ہے اگلے دو ماہ میں عوام کو واپس کریں گے جبکہ ہم بجلی میں مزید اضافوں کی خوشخبری سن رہے ہیں تو کہاں گیا وہ وعدہ فرو ا؟
عمران خان تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔وہ تبدیلی جو پسے ہوئے لوگوں کے دل کی آواز ہے مہنگائی نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے دھرنے اس ملاپ کا سبب بنے ہیں کیونکہ وہاں سب ایک شخص کے مہمان ہوتے ہیں انہیں کسی کی مہمان داری نہیں کرنی پڑتی ۔وہ امید افزا باتیں سنتے ہیںکھلی فضا میں جوش دلانے والے ترانے سنتے ہیں اچھے وقت کی نوید اس مردہ قوم کو زندہ کر رہی ہے ۔مگر یہ علماء سُو انہیں طوائفوں سے تشبیح دیتے ہیں۔
حضرت مولانا سید اصغر حسین رحمتہ اللہ علیہدارلعلوم دیو بند کے مشہور محدث تھے اور سنن ابن دائود کا درس دیا کرتے تھے۔حضرت صاحب کا گھر دارالعلوم سے کافی فاصلے پر تھا۔ گھر کے قریب راستے میں ایک طوائف کا گھر پڑتا تھا جو برسوں سے وہاں رہتی تھی جب اس کا گھرآتا تو مولانا اصغر اپنے جوتے اتار لیتے ۔جب اس کا گھر گذر جاتا دوبارہ جوتے پہن لیتے ۔حضرت مولانا محمد شفیع صاحب نے ایک بار پوچھا حضرت! آپ یہاں سے گذرتے ہوئے جوتے کیوں اتار لیتے ہیں ؟حضرت رحمتہ اللہ نے عجیب بات ارشاد فرمائی ۔فرمایا جب یہ جوان تھی تو بہت گاہک آتے تھے اب بوڑھی ہو گئی ہے کوئی گاہک نہیں آتا۔ رات کو دیر تک گاہک کی منتظر رہتی ہے ۔میں رات کو جوتے اس لیئے اتار دیتا ہوں کہیں میرے جوتے کی آہٹ سے اسے یہ امید نہ ہو جائے کہ شائد کوئی گاہک آرہا ہے ۔مجھے تو اس کے پاس جانا نہیں میں تو گذر جائونگا تو اس کا دل ٹوٹے گا فضول کسی کا دل دکھانا کونسی نیکی کا کام ہے۔
ایک طوائف کا دل ٹوٹنے کے امکانی خطرے کے پیش نظر مستقل معمول بنا رکھا تھا کہ گذرتے وقت جوتے اتار لیا کرتے ۔۔اور ایک یہ عصر حاضر کے مولانا ہیں جنھوں نے پورے ملک کی جوان و پڑھی لکھی بچیوں کو طوائفیں بنا دیا ہے اور انہیں کوئی ملال بھی نہیں ۔جن کو پوری قوم سے معافی مانگنا چاہیئے۔ مولانا طاہر اشرفی شراب کے نشے میں سڑک پر پائے گئے تو کہا کسی نے شراب میرے جسم میں انجکٹ کی ہے ۔اس پر کوئی عالم نہیں بولا، ابھی حال ہی میں جیو پر نشے میں جھومتے ہوئے قرانی آیات پڑھ رہے تھے کوئی فتویٰ نہیں لگا بلکہ کہا گیا میٹھے پان کا فتور ہے ۔استغفراللہ! شائد اسی لیئے آج علماء کی قدر نہیں رہی ۔اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہوتی ہے اسے نصیحت بھی کرو تو پہلے اپنے کردار اور اپنی زبان کو پاک کرو اسے جھوٹ اور منافقت سے آلودہ نہ کرو ۔ورنہ خلق کسی کو نہیں چھوڑتی ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں زبان خلق کو نقارہء خدا سمجھو!