اسلام آباد (جیوڈیسک) سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی واقعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ سکتا، یہاں کچھ ہوا نہیں کہ اِدھر واقعے کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں، ہیش ٹیگز بن گئے اور صرف یہی نہیں حکام بالا کی جانب سے ان وائرل پوسٹس کا نوٹس لے کر مناسب کارروائی کی خبریں بھی شہ سرخیوں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
راولپنڈی کی کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا کیس بھی سوشل میڈیا کی ہی بدولت سامنے آیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور پھر معصوم بچی پر ظلم کرنے والے جج اور ان کی اہلیہ کو سزا ہوئی، اب لاہور میں ایک اور گھریلو ملازمہ پر تشدد اور بہیمانہ قتل کا واقعہ بھی اِن دنوں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ ‘عظمیٰ کو انصاف دو’ (JusticeForUzma) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ 16 سالہ گھریلو ملازمہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔
گھریلو ملازمہ عظمیٰ کے قتل کی لرزہ خیز واردات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ قتل اتنا سنگین ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ مقتولہ کا قصور صرف اتنا تھا اُس نے اپنی مالکن کی بیٹی کی پلیٹ سے کھانے کا محض ایک لقمہ لیا تھا۔
عظمیٰ ایک غریب چوکیدار کی بیٹی تھی، جس نے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے بھی ملازمت کی بھٹی میں جھونک دیا۔
لاہور کے جس خاندان کے پاس عظمیٰ بطور ملازمہ کام کر رہی تھی، وہ اسے کئی ماہ سے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔ عظمیٰ کو اکثر اوقات ناکردہ گناہوں کے جرم میں بھوکا رکھا جاتا اور سرد راتوں میں واش روم میں بیت الخلاء کے بالکل سامنے ٹھنڈے فرش پر سونے کے لیے جگہ فراہم کی جاتی، اس پر ظلم یہ کہ جب عظمیٰ کے اہلخانہ اُس سے ملاقات کے لیے آتے تو ان سے کہا جاتا کہ وہ دوسرے شہر گئی ہوئی ہے۔
یہ سب تو شاید روز کا معمول ہوگا، لیکن مالکن کی چھوٹی بیٹی کی پلیٹ میں سے محض ایک لقمہ کھا لینا، عظمیٰ کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا، جس کی پاداش میں اسے شدید تشدد کا نشانہ بناکر موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔
اپنی لاڈلی بیٹی کی پلیٹ سے ایک نوالہ کھانے کی پاداش میں عظمیٰ کی مالکن نے اسے سر پر اُس بری طرح سے مارا کہ وہ بالکل نیم جاں ہوگئی، جس کے بعد مناسب طبی امداد دینے کے بجائے عظمیٰ کو بجلی کے جھٹکے دیئے گئے تاکہ اس میں ‘جان’ واپس آسکے۔
لیکن عظمیٰ کوئی گڑیا نہیں تھی، جس میں ‘سیل’ ڈال کر اسے دوبارہ سے زندہ کردیا جاتا۔ وہ ایک جیتی جاگتی انسان تھی، جو اتنا بہیمانہ ظلم برداشت نہ کرسکی اور موت کی آغوش میں چلی گئی۔
لیکن ان ظالموں کا غصہ شاید پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہوا اور انہوں نے عظمیٰ کی لاش کو بوری میں بند کرکے انتہائی بے رحمی سے گندے نالے میں پھینک دیا، شاید اس خیال سے اس طرح ان کا گناہ چھپ جائے گا یا کوئی ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا، اور صرف یہی نہیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ عظمیٰ ان کے گھر سے چوری کرنے کے بعد غائب ہوگئی۔
عظمیٰ کی لاش 2 دن بعد گندے نالے سے برآمد کی گئی، اہلخانہ کے مطابق اس کے چہرے سمیت پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے، اُسے اِس بری طرح سے مارا پیٹا گیا تھا کہ اس کی ہڈیاں جگہ جگہ سے فریکچر ہوگئی تھیں۔
سوشل میڈیا پر عظمیٰ کے انتقال سے ایک روز قبل ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں 16 سالہ عظمیٰ انتہائی نحیف و نزار نظر آرہی ہے۔ اُسے دیکھ کر کسی بوڑھی عورت کا گمان ہوتا ہے، جسے کھانا کھلانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے حلق میں شاید وہ ایک نوالہ پھنس چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس حال تک پہنچی اور پھر اپنے رب سے جا ملی۔
عظمیٰ کے قتل کے الزام میں اس کی ظالم مالکن کو بیٹی اور نند سمیت گرفتار کرلیا گیا، جنہوں نے پولیس کے سامنے ابتدائی تفتیش میں اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اس ‘غلطی’ پر معافی بھی مانگنے کی کوشش کی، لیکن ان کی یہ معافی عظمیٰ کو واپس نہیں لاسکتی، یہ معافی بستر مرگ پر بجلی کے جھٹکے سہتی عظمیٰ کے کرب اور تکلیف کا مداوا نہیں کرسکتی، یہ معافی اب کسی کام کی نہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اس غریب اور بے گناہ لڑکی کے بہیمانہ قتل کے خلاف تحریک التوا بھی جمع کروائی جا چکی ہے، سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ عظمائیں مالکان کا ظلم سہہ کر موت کو گلے لگاتی رہیں گی۔
اپنی امارت اور بڑائی کے نشے میں چُور ان ظالموں کو اتنی سخت سزا دی جانی چاہیے کہ آئندہ کوئی اور مالکن کسی اور عظمیٰ کے ساتھ یہ ظلم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے!