سوشل میڈیا پر پابندی

Social Media Ban

Social Media Ban

تحریر : محمد ارسلان جمال
عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کی افادیت و مقبولیت سے ہرگز انکا نہیں کیا جاسکتا۔آج کے اس دور میں بچے بڑے مرد عورت ہر عمر کے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں ساتھ ہی دینی طبقہ بھی پیش پیش ہے کہ جس میں عالم دین سے لیکر مفتی وشیخ الحدیث بھی تبلیغ دین و دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرر ہے ہیں ۔کروڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنا اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،لیکن بدقسمتی سے اس بھیڑ میں ایسے شرپسند اور آزار خیال لوگ گھس آئے ہیں جو دین اسلام کا انکار اور نعوذباللہ آپۖ کی شان میں مسلسل گستاخی کر رہے ہیں ان گستاخوں کی تعداد کثیر ہے جو پوری دینا میں پھیل اور پھول رہے ہیں ۔پاکستان میں بھی ان بدبخت ملحدوں کی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنا ایمان چند ٹکوں کے عوض بیچ ڈالا اور اب غیروں کے اشاروں پرناچ رہے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ان سے سوال کیا جائے کہ وہ اس قسم کے حرکات کیوں کرتے ہیں ؟ تو اپنی آزادیِ اظہار رائے کی چادر لپیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ کیسی آزادی ِ اظہار ہے کہ جس سے کسی مذہب پر وار کیا جائے؟ یہ کیسی آزادی ہے کہ جس سے انتشار پھیل رہا ہے؟ ضرور اس میں شیطانیت پنپ رہی ہے ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔

ایسے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تاریخی فیصلہ لیا ،اس قسم کے فیصلے بہت پہلے ہی لینے چاہئے تھے۔ توحین رسالت ۖ ، توحین اہلِ بیت کوئی نئی بات نہیں اس قسم کے خبیث ماضی سے ہی کار بد ہیں ۔ اللہ پاک جسٹس شوکت صدیقی کی دراز رعمری کرے ، آپ نے جس طرح معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے سنجید گی کا مظاہرہ کیا ہے یقینی طور پراپ اللہ کے سامنے سرخرو ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سینٹ میں بھی ارکان کا اس مسئلے پر متفق ویک زبان ہونا قابل ستائش ہے ۔دوسری جانب وزیر داخلہ چودھری نثار کی سربراہی میں متعلقہ محکموں کے افسران کے ساتھ اجلاس بولانا بھی لائق تحسین ہے ۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ہمیں توحین رسالت جیسے مواد کو ہٹانے کے لئے سوشل میڈیا پر پابندی لگانا پڑ ی تو ہم اس سے گریز بھی نہیں کریں گے۔

Society

Society

دراصل سوشل میڈیا پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہم جانتے ہیں کہ آپ نے جذبات میں آکر یہ بیان دیا ،یہ گستاخ لوگ معاشرے میں نجانست کی طرح ہیں ، آپ کے جسم پر اگر کہیں نجاست لگی ہو تو آپ اسے دھوتے ہیں نہ کہ آپ جسم کا وہ حصہ اپنے وجود سے کاٹ کر ہٹا دیتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان بے ایمانوں کا تعقب کرنا ہوگا۔ ہماری سائبر کرائم ونگ اتنی مضبوط ہے کہ جب ہم سلمان حیدر اور دیگر گستاخوں کو انکی آپی ایڈریس بار بار تبدیل کرنے پر بھی پکڑ سکتے ہیں تو باقیوں کو کیوں نہیں؟ سوشل میڈیا کو مکمل طور پر بند کرنے کے احکامات اگر جاری ہوئے تو یہ احکامات بڑی احمکانہ ہوگی ۔ کیوں کہ آپ کے اس عمل سے وہ مخصوص طبقہ ِ ناسور جو توحین رسالت کے مواد کو فروغ دیتا ہے وہ سوشل میڈیا بند ہونے پر متبادل ذرائع ڈھونڈے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہی رہے گا جب تک ہم ان ناسورں کو گرفتا ر کر کے انہیں قانون کے مطابق سزا نہیں دیتے یہ معمہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

جس طرح دہشت گردی کوفروغ دینے کیلئے شرپسندوں نے کتاب کا سہارا لیا اور جہادی لیٹریچر تیار کئے تو ہم نے ان مخصوص کتاب و کتابچے پر پابندی لگائی نہ کہ پورے پاکستان میں کتابوں پر پابندی لگی اسی طرح ہمیں سوشل میڈیا پر ایسے پیج،ویب سائٹ،پروفائل کا خاتمہ کرنا ہے اور ان لوگوں کو گرفتار کرنا ہے جو یہ گھنائونا عمل کر رہے ہیں ان کے لئے ہمارا سائبر کرائم بل اور سائبر اسپیشلسٹ موجود ہیں جس کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں دورس نتائج مل سکتے ہیں۔ والسلام

Arsalan Jamal

Arsalan Jamal

تحریر : محمد ارسلان جمال
03417031350
4240157005793
arsalanjamal217@gmail.com