مِنیسوٹا (اصل میڈیا ڈیسک) فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی معروف سماجی رابطوں کی ویب سائٹز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ویڈیو کو ہٹا دیا ہے جو انہوں نے سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پوسٹ کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کیے جانے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگيا ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم نے صدر کی جانب سے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ اس ویڈیو پر کئی افراد نے کاپی رائٹ کا الزام عائد کیا، جس کے بعد ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹا گرام نے اسے ڈس ایبل کر دیا۔
صدر ٹرمپ کی ٹیم نے جارج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جو ویڈیو کلپ پوسٹ کی ہے اس میں احتجاجی مظاہرین کی تصاویر اور ویڈیو دونوں شامل ہیں۔ کلپ میں مظاہرین کو مارچ کرتے ہوئے دکھانے کے ساتھ پر تشدد واقعات بھی پیش کیےگئے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ اس کے بیک گراؤنڈ میں خطاب کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو کے تعلق سےکاپی رائٹ کی شکایتیں موصول ہونا شروع ہوئیں جس کی وجہ سے ان ویب سائٹس نے اس ویڈیو کو ہٹا دیا۔ ٹوئٹر کے ایک نمائندے کا کہنا تھا، ’’کاپی رائٹ کے مالک یا پھر ان کے نمائدوں کی جانب سے ہمیں کاپی رائٹ کے بارے میں واجب شکایات ملیں اور ہم نے اسی پر کارروائی کی ہے۔‘‘
46 سالہ جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منییاپولس میں چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لے کر انہیں سڑک پر پیٹ کے بل گر دیا اور پھر ایک سفید فام پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے تقریبا نو منٹ تک دباؤ ڈالتا رہا۔ اس دوران فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کرتے رہے، ”پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔‘‘ لیکن پولیس اہلکار نے ان کی ایک نہ سنی اور اس کارروائی کے چند منٹوں کے اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔
ایک شخص نے پولیس کی ان زیادتیوں کی ویڈیو بنا لی اور اس کے منظر عام پر آتے ہی مظاہرے شروع ہوگئے جو دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی تمام ریاستوں میں پھیل گئے۔ بیشتر شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اس ہلاکت اور مظاہروں کے تعلق سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض متنازعہ بیانات بحث کا موضوع رہے ہیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس ویڈیو کے حوالے سے ان کی ٹیم سے کاپی رائٹ کے سوال پر غلطی ہوگئی۔ فیس بک، جو انسٹاگرام کی بھی مالک کمپنی ہے، کا کہنا ہے کہ اسے ’ڈیجیٹیل ملینیئم کاپی رائٹ ایکٹ‘ کے تحت شکایات موصول ہوئی تھیں اس لیے اس ویڈیو کو ہٹا دیا گیا ہے۔ فیس بک نے اس سلسلے میں ایک بیان میں کہا کہ انسٹاگرام پر وہی تنظیمیں اپنا مواد شائع کرنے کی مجاز ہیں جن کے پاس مواد کے حقوق ہوں۔
سب سے پہلے ویڈیو کلپ ٹوئٹر نے ہٹانے کا اعلان کیا جس پر ٹرمپ کافی برہم ہوگئے اور کہا کہ ٹوئٹر، ’’ڈیموکریٹ پارٹی کے شدت پسند بائیں بازو کے محاذ کے لیے سخت لڑائی لڑ رہا ہے۔ یہ تو یکطرفہ لڑائی ہے۔ غیر قانونی ہے۔‘‘
ٹوئٹر کے ساتھ ٹرمپ کا یہ پہلا جھگڑا نہیں ہے۔ چند روز قبل بھی ٹوئٹر نے ٹرمپ کی بعض ٹوئیٹس پر اعتراض کرتے ہوئے، حقائق چیک کرنے کی تلقین کی تھی جس پر صدر ٹرمپ اتنے برہم ہوئے کہ میڈيا کی آزادی کے تعلق سے ایک ایگزيکٹیو آرڈر پر دستخظ کر دیے تھے۔
لیکن جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کے تعلق سے ٹرمپ نے ایک اور متنازعہ ٹویٹ کی جس میں انہوں نے کہا، ’’جب لوٹنگ ہوتی ہے تو شوٹنگ شروع ہوتی ہے۔‘‘ ٹوئٹر نے ان کی اس ٹوئیٹ پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن فیس بک نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جس کے خلاف فیس بُک کے بہت سے ملازمین نے اعتراض کیا تھا۔
مذکورہ متنازعہ ویڈیو کلپ تین جون کو پوسٹ کی گئی تھی جو تین منٹ 40 سیکنڈ دورانیے کی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ فیس بک نے بھی اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔ فیس بک کے بانی مارک زوکر برگ نے اس حوالے سے اپنے ملازمین سے پالیسیوں میں تبدیلیوں کا بھی وعدہ کیا ہے۔