تحریر : علی عمران شاہین اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر توہین رسالت اور توہین اسلام کے مسلسل واقعات کا نوٹس لئے جانے اور سخت احکامات جاری کرنے کے بعد حکومتی اور عوامی حلقوں میں ہلچل مچی ہے۔حیرانی اس بات پر ہے کہ اتنی کھلی اور طویل عرصے سے جاری جسارت کے باوجود ابھی تک کوئی بھی ایسا بلاگر یا مواد پوسٹ کرنے والا شخص گرفتار نہیں ہو سکا۔اس کی وجہ کیا ہے ؟اس کا بھی کوئی جواب دینے کو تیار نہیں کہ جیسے نعوذ باللہ اس سب سے کسی کی ذات کو کوئی سروکار نہیں۔دنیا کو یاد ہو گا کہ ”پاکستان میں عزت لوٹے جانے کاتماشہ کرواور مغرب میں پناہ اور شہریت مل جائے گی۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس بیان نے اپنے زمانے میں بے پناہ شہرت حاصل کی تھی جس پر اندرون وبیرون ملک مخصوص لابی نے وہ طوفانِ بدتمیزی بپاکیاکہ اللہ کی پناہ’ حالانکہ پرویزمشرف نے تومعاملے کا ایک پہلو ہی بیان کیاتھا۔انہیں اس طوفان بدتمیزی کے بعدا وضاحتیں دینا پڑی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب سے پناہ’ شہریت اور پیسہ کے لیے ایسے اوربھی بہت سے ہتھکنڈے ہیںجن میں سے ایک کانظارہ ہم نے سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی کیاتھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ اقدامات سے پہلے 7جنوری2017ء کو اچانک شور مچاتھاکہ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کااستاد لاپتہ ہوگیاہے۔ پتہ چلاکہ موصوف کانام پروفیسرسلمان حیدرہے۔ اس سے 2سے3دن پہلے عاصم سید’وقاص گورایہ اوراحمدرضا نامی افراد بھی ”لاپتہ ”ہوئے۔ سلمان حیدر کے غائب ہوتے ہی موم بتی مافیاحرکت میں آیااور چند بڑے شہروں میں چند مخصو ص افراد شور مچانے کھڑے ہوگئے کہ ان بے گناہوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ہیومن رائٹس کمیشن نامی ادارہ بھی ان میں سے ایک تھا جومیدان میں اترا اور حکومت پردباؤڈالناشروع کر دیا۔بات آگے بڑھی اور امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) اوربرطانوی دفتر خارجہ نے بھی ایک ہی روزایک ہی مطالبہ پاکستان کے سامنے رکھ دیاکہ مذکورہ افراد کو فوری طورپربازیاب کرایا جائے اوریہ کہ ان ممالک کو اس حوالے سے شدید تشویش ہے۔
ایسے بیانات اور دباؤکے وار دیگرانسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے بھی دیکھنے کوملے۔حیران کن معاملہ یہ ہواکہ یہ افراد جن کے بارے میں سارا جہاں جانتاہے کہ یہ سوشل میڈیا میں اپنی ایک مخصوص سوچ جو سراسر اسلام او رپاکستان کے منافی ومخالف ہے’ کی ترویج کے لیے دن رات کام کرتے ہیں’حیران کن طورپر ان کے منظر سے غائب ہوتے ہی یہ سلسلہ اچانک رک گیا۔ فیس بک پربھینسا’انگرا اور موچی نامی ان کے بہت سے ویب پیجز اچانک بندہوگئے تودینی حلقوں نے بھی آواز بلند کرنا شروع کی کہ ان لوگوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی جائے کہ اس سارے قبیح اور بدطینت سلسلے کے پیچھے یہی لوگ کارفرماتھے۔عوامی حلقے ویسے توایک عرصہ سے اس حوالے سے متعلقہ محکموں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس جانب اعلیٰ حکام کی توجہ مبذول کرانے میں مصروف عمل تھے لیکن نقارخانے میں طویل عرصہ طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔پھرجب یہ 5,4 افراد اچانک غائب ہوئے توان دنوں میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان جب بھی میڈیا کے سامنے آتے’انہیں ان لوگوں کے حوالے سے سوالات کاسامناہوتا’جواباً وہ یہی کہتے کہ ان افراد کو تلاش کیاجارہا ہے’جلد ہی صورتحال قوم کے سامنے آجائے گی،وغیرہ وغیرہ۔ 27جنوری 2017ء کو سلمان حیدراچانک گھرپہنچاتو اگلے روز باقی ماندہ افراد بھی منظر پر آگئے…!ابھی انہیں گھر پہنچے ایک روزبھی نہیںگزراتھا کہ پتہ چلا کہ عاصم سعیدنامی بلاگرسنگاپورروانہ ہوچکاہے۔اس کا اوراس کے ساتھیوں کاپہلے بھی ٹھکانہ اکثروبیشتر سنگاپور تھا۔مذکورہ بلاگرزکے بارے میں ایک بات توسبھی کوپتہ ہے کہ یہ سبھی بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے تواپنے ساتھ ملحدانہ نظریات بھی لے کرآئے اورسبھی دیگرریاست مخالف سرگرمیوں کے ساتھ اپنی ملحدانہ سوچ اور نظریات کاپرچار کر رہے تھے۔
Social Media
آج سوشل میڈیا پر جو ویب پیجز بند ہوئے ہیں یا انہی ناموں سے نئے لیکن مثبت پیجز چل رہے ہیں’ ان پرپہلے اسلام’پاکستان’ نظریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام انبیاء کرام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و صحابیات رضی اللہ عنہن سمیت ہرپاکبازومقدس ہستی کو انتہائی قبیح انداز میں نشانہ بنایاجاتارہاتھا۔ یہ کرنے والے کون ہیں اور ان سب کا ہدف اردودان طبقہ اور پاکستانی معاشرہ ہی کیوں تھا؟اس کا کوئی جواب دینے کوتیارنہیں۔البتہ ایک لاپتہ شخص کے فرسٹ کزن نے باقاعدہ میڈیاپر آکرانکشاف بھی کیاتھا کہ واقعی وہ اسلام مخالف نیٹ ورک چلا رہاتھا لیکن جب یہ لاپتہ ہوئے توان کے لیے ملک وبیرون ملک سے مخصوص لابیاں فوراً حرکت میں آئیںتوخوب انداز ہ ہواکہ ان سب کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جارہی تھیں۔یہ تماشہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا۔اسلام کے خلاف بدترین زبان اورالفاظ استعمال کرنے بلکہ کتابیں لکھنے والے لوگ وہ سلمان رشدی ہو یاتسلیمہ نسرین ‘ مغرب کی آنکھوں کاتارا ہیں۔یہی نہیں، وہ قادیانی جنہیں ساری امت اول دن سے متفقہ طورپر دائرہ اسلام سے خارج ومرتدقراردے چکی ہے’ کو آج بھی پناہ یورپ’ امریکہ ‘کینیڈامیں ملتی ہے اور انہیں خوب پالا پوسا ، خوب مددوخدمت ہوتی ہے۔
مغرب کی اول دن سے پاکستان کے حوالے سے یہ کوشش ہے کہ اسے ایسی لادینی سیکولرریاست بنایا جائے جہاں اسلام اور اسلامی تعلیمات پرتوہرطرح سے حملے کرنے کی اجازت ہو لیکن اس کے خلاف بات کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔اس کے لیے پاکستان پردباؤ ڈالاجاتاہے کہ وہ اپنے ملک کے آئین سے تمام اسلامی دفعات خصوصاً قرارداد مقاصد ‘ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے شقیں ختم کرے ‘اسی لیے تو ایک گستاخ خاتون آسیہ مسیح جس پرتوہین رسالت ہائی کورٹ تک ثابت ہوچکی ہے’اب معاملہ سپریم کورٹ پہنچاہے کا مقدمہ لٹکا کررکھا گیا ہے۔اسے توانسانی حقوق کامسئلہ بنایا گیالیکن بدترین توہین رسالت اور توہین مذہب کسی طرح انسانی حقوق کے زمرے میں نہیں آتیں۔ان لوگوں کی خرافات سے ڈیڑھ ارب سے زائدمسلمانوں کے جذبات چھلنی ہوں’ایسے طبقات کی جانب سے مسلمان کے احساسات اورایمان سے ہروقت کھیلاجائے تو یہ انسانیت کے خلاف کسی طرح جرم میں شمار نہیں ہوتا۔ البتہ ایساکرنے والے دویاچار افراد پرہاتھ ڈالاجائے تو سارے عالم میں ہاہاکار مچ جاتی ہے۔
جب یہ لوگ چنددن پہلے منظرنامے سے غائب ہوئے تھے’ ہم نے عجیب منظردیکھا کہ ہمارے اپنے وطن کامیڈیا ان بلاگرز کے لیے ہونے والے گنتی کے 10افراد کے مظاہرے بھی مسلسل براہ راست دکھانافرض اولین سمجھتاتھا۔لگ بھگ سبھی چینلز پر کئی ہفتے لگاتار گھنٹوں تبصرے ہوتے تھے لیکن اسی ملک میں اس ملک کے دفاع اورملک پرحملہ آور اندرونی وبیرونی دشمنوں کے خلاف ہونے والے لاکھوں کے اجتماعات کومیڈیاپر مکمل طورپر گول کردیاجاتاہے اوراس کی دنیاکو ہوابھی نہیں لگنے دی جاتی۔قارئین کویادہوگا کہ کوئی4سال پہلے جب گستاخانہ خاکوں اور فلموں کے خلاف ساری دنیامیں احتجاج ہواتھا توپاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال اور سب سے بڑایکجہتی کامظاہرہ ہواتھالیکن ہمارے میڈیا نے سارے ملک کے پرامن احتجاج’گلی گلی ‘محلے محلے کے جلوسوں اور لاکھوں کروڑوںکے اجتماعات چھوڑ کر کراچی میں جلنے والی پولیس وین سارادن اوراگلے دن ہی سارے اخبارات نے مرکز نگاہ بنائے رکھا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے مسلمان ملک کایہ میڈیا اور عوام کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا اس توہین مذہب کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے اپنا بنیادی کردار ادا کرسکتاہے لیکن ایساقطعاً نہیں ہورہا۔حال یہ ہے کہ ملک کے دفاع اور خدمت کے لیے ہر وقت سرگرم جماعت ‘جماعة الدعوة کے امیرپروفیسر حافظ محمدسعیداور ان کے 4اہم ترین رفقاء کو قید میں ڈال دیاگیاہے۔38 لوگوں کے نام پہلے ای سی ایل میں ڈالے گئے اورپھر اگلے فیصلے میں بلاوجہ حافظ محمدسعید اوران کے ساتھیوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دئیے گئے۔ایسے لوگ جنہوں نے ملک میںتنکا نہیں توڑا’جنہوں نے کبھی نفرت یاتشددکی سیاست نہیں کی بلکہ کبھی بیان نہیں دیا’کے خلاف ہرسخت سے سخت قدم اٹھایاجارہاہے لیکن وہ لوگ کہ جن کے بارے ثابت ہوچکا کہ یہ بدترین توہین رسالت اور توہین مذہب میں ملوث ہیں’کوچھوڑدیاگیا۔ ان پرعدالتوں میں کوئی مقدمہچلا،نہ ان پر ایف آئی آر درج ہو سکی۔
پروفیسر حافظ محمد سعید کے جانثارمشکلات اورمصائب کے باوجوددہشت گردی کی حالیہ لہرمیں دن رات مصروف خدمت ہیں۔وہ جسم سے خون کے قطرے تک نچوڑ نچوڑ کر ہم وطن شہریوں کے جسموں میں انڈیل کر ان کی جانیں بچارہے ہیں لیکن میڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔یہ صحیح ہے کہ اس حوالے سے غیرملکی دباؤ بہت ہے لیکن کیاہم نے کبھی دنیا میں اپنی حیثیت منوانے ‘اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے کے لیے جوابی وار کیایامقدمہ بھی پیش کیاہے ۔ آج مغربی دنیا میں مسلمانوں اور ان کے مقدسات کے ساتھ کون سابرا سلوک نہیں ہورہا لیکن افسوس کہ ساری مسلم دنیاسے اس حوالے سے کوئی آوازبلند نہیں ہوتی ۔اگریہ سلسلہ روکنے کے لیے صحیح معنوں میں اقدامات نہ ہوئے تو”جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات” کا عملی نمونہ یہ امت بنتی رہے گی۔اب بھی وقت ہے کہ ہم آنکھیں کھول لیں اور اپنے پرائے دوست اوردشمن میں تمیز کرلیں ۔اگرہم توہین اسلام’توہین رسالت ‘توہین قرآن روکنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے توآخرت میں کون سامنہ لے کرشفاعت کی امیدرکھ کر جائیں گے ۔دشمن توہم سے نہ پہلے کبھی راضی ہوئے ‘نہ آئندہ ہوں گے تو کیا ہم یونہی زندگیاں گزارتے رہیں گے۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین ( برائے رابطہ:0321-4646375)