جاوید کا ایک متوسط گھرانے سے تعلقتھا خدا کا دیا سب کچھ اس کے پاس تھا وہ سمجھ دار ،دوراندیش شخص تھا بس اس میں دو خامیاں تھیں ایک وہ خوش نہیں رہتا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ سوشل میڈیا پر بہت وقت گزارتا تھا ایک دن معمول کے مطابق وہ اپنی فیس بک پر مصرو ف تھا کہ اچانک اسکے والد کے فون سے کا ل آئی جاوید نے کال اٹینڈ کی دوسری جانب خاتون کی آواز آئی کہ فورا الائیڈ ہسپتال پہنچے آپ کے والد کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے اور ان کو خون کی اشد ضرورت ہے جاوید نے جلدی جلدی اپنی والدہ،بہن اور چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور ہسپتال پہنچا والد کو دیکھا وہ آئی سی یو میں تھے نرس نے کہا ان کو فوری خون کی اشد ضرورت ہے جاوید نے نرس سے کہاکہ آپ میرا خون لے لیں نرس نے کہا ٹھیک ہے آپ جاکہ بلڈبنک میں کراس میچ کروائیں جاوید فورا بلڈ بنک کی طرف کراس میچ کے لئے دوڑا بلڈ سمپل دیا لیکن جاوید کی مشکل میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب لیباٹری والے نے کہاکہ آپ کا بلڈ گروپ میچ نہیں ہوا اور بلڈ بینک میںB+بلڈ دستیاب نہیں ہے جاوید واپس آئی سی یو میں گیا زخمی حالت میں پڑے والد کی تصویر لی اور اس کو فیس بک پر شیئر کیا جس پر لکھا تھا کہ B+بلڈ کی اشد ضرورت ہے جس کسی دوست کا بھی یہ گروپ ہے وہ مجھ سے فورا رابطہ کرے وقت گزرتاگیامگر فیس بک پر سوائے ہمدردی اور جلد صحت یابی کے کمنٹس کے علاوہ کوئی نہیں آیا جاوید کے فیس بک پر کوئی سو سے زائددوست تھے مگر اس تکلیف کی گھڑی میں سوائے جاویدکے اور اسکے گھرانے کے کوئی نہیں تھا حالانکہ B+گروپ ان بلڈ گروپس میں نہیں آتا جوبہت مشکل سے ملتے ہیں۔
تب اس کو احساس ہوا کہ فیس بک پر سینکڑوں دوست بنانے سے کیا ہی بہتر ہوتا کہ کوئی ایک حقیقی اور سچا دوست بنایا ہوتاتو آج یہ لمحہ نہ دیکھنا پڑتا۔موجودہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں بہت تیز اور مطلب پرست ہوتا جا رہا ہے خود غرصی اپنے عروج پر ہے یہاں جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا اوپرسے سوشل میڈیا کا استعمال جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جارہاہے ہر کوئی اس کی دھن میں مست ہے اور اس دھن میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے یہاں پر میں بآوار کرواتا چلو کہ مجھے اس کے استعمال پر اعترازنہیں ہے اعتراز ہے تو اسکے غلط اور بیجا استعمال پے ہے۔ دنیا میں ہر چیز کے دو استعمال ہوتے ہیں ایک صیح اور ایک غلط سو اس تحریر کا مقصدہے کہ سوشل میڈیا کے نقصانات کے بارے آگاہی دینا۔ کہ ہم کس طرح سوشل میڈیا کے نقصانات سے دور رہ سکتے ہیں۔
اکثر و بیشتر مشاہدے میں آیا ہے سوشل میڈیا کا زیادہ استعما ل کرنے والے افراد دبائو (ڈپریشن) ،حسد، اداسی، پریشانی،ناامیدی،غصہ اور چڑچڑا پن جیسے مسائل میں مبتلا رہتے ہیںایسے عالم میں خاندانی زندگی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے ڈھنگ سے سلام کرلیں خیریت دریافت کر لیں ایک جگہ مل کر بیٹھ جائیں اور اگر کبھی ایسا حسن اتفا ق ہو بھی تو کوئی بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے اپنے اپنے موبائل میں مصروف ہوتاہے کسی محفل میں ہو تو وہاں ہر سین کی تصویر بنانا جنون ہوتا ہے۔
سیلفی کے لیے عجیب و غریب طرح کا منہ بنانے لازمی مشغلہ بنتا جا رہا ہے اور پھر ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا،شیئرکرنا،کمنٹس کرنااور لائق کرنا تو فرض ہے بس انہی باتوں نے حقیقت سے دور کر دیا ہے اگر ماضی کی بات کی جائے تو لو گ ایک دوسرے سے خوشی سے ملتے تھے اور ملنے کے لیے وقت نکالتے تھے ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے ایک دوسرے کی عزت واحترام کرتے تھے ہر وقت مدد کے لیے تیار رہتے تھے میںقارئین کرام کو چند ایک گزارشات اس امید سے کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اصول یا عادتیں اپنا کرزندگی کو بہتر اور اچھے انداز سے گزار سکتے ہیں چاہے آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کوشش کریں کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف کریں دن کا آغاز ہی عبادت سے کریں۔
پرہیز گار زندگی گزاریں ملنے والوں کو باعزت اور خوش اخلاق طریقے سے ملیںیقین جائنیں اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا،اکثر لوگ سوشل میڈیا کے باکثرت استعمال کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں تو ایسے حالات تب پیدا ہوتے ہیں جب کو ئی خوش نہیںہو تا اور اپنے آپ کو حقیقت میں تنہا پاتا ہے تو ا یسے افرادکے لیے بہترین حل یہ ہے کہ دوسرے لوگ سے ملیںبات چیت کریں کھلی فضاء میں سیر کریں ورزش کریں قدرتی منظر دیکھیں ،بیشتر لوگوں میں حسداور غصہ جیسی بُری عادتیں پید اہوجاتی ہیں ایسی صورتحال سے قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ خداوند کریم کی تقسیم پر راضی رہیںاور مثبت سوچ رکھیں دوسروں کو خود سے بہتر سمجھیںاور جو کچھ الہٰی نے آپ کو دیا ہے اس پر شکر کریں قناعت کریں۔
سوشیل میڈیا کے حد سے زیادہ استعمال کرنے والے اداسی پریشانی اور ناامیدی جیسے معاملات میں بھی جکڑے ہوتے ہیں ایسے افراد کو لازم ہے کہ وہ کسی مخلص دوست احباب کی تلاش کریں جو ان کی اداسی پریشانی اور ناامیدی کو دو ر کرے کیونکہ دولت اور دیگر مادی اشیاء سے حاصل ہونے والی خوشی دم بھر کی ہے ایسے مخلص دوست ان افراد کو صحیح سمت میں لے جائے او رمتاثرہ افراد کو مخلص دوست کی قربت میں خوشی اور اطمینان محسوس ہو۔
سوشیل میڈیا فوبیاکے شکار افراد کو چاہئے کہ وہ اپناوقت کام کاج میں صرف کریں اپنے فرائص کو عمدہ طریقے سے نبھائیں اپنا کام ایمانداری لگن اورشوق سے کریں اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن آخرمیں بیان کرتا جائو کہ ،سوشیل میڈیا فوبیاسے متاثر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر پل بھرپور انداز سے گزاریں جو کچھ پاس ہے اس پر خوش رہیں اس کا بہترین استعمال کریں مخلص دوست بنائیں ان کے ساتھ وقت گزاریں ددسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں دکھ میں ساتھ دیں اور ایسے مشغلے اپنائے جن سے دلی و ذہنی سکون حاصل ہو کیونکہ خداوندکریم نے جو وقت دیا ہے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب ختم ہوجائے اور پھر جاوید کی طرح آئی سی یو کے باہر کھڑے ہو کر سوائے پچھتائو کچھ نہ ہو۔