پولیس اہلکاروں ، وکیل صاحبان اور بعض دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے تشدد کے واقعات خصوصاًخواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی موقع پر وڈیو بنانا اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی بیماری سارے ملک میں سرایت کر چکی ہے ،اس قسم کے واقعات کی وڈیوز کو دیکھا جائے تو اکثر بیسوں لوگ اس تشدد کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ،اور وڈیوبنانے والا بھی بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ وڈیو بنانے میں مصروف رہتا ہے تاکہ وہ اسے سوشل میڈیا ،یوٹیوب وغیرہ پر اَپ لوڈ کرکے دنیا کو ظلم کی تصویر دکھا سکے ۔اس کا مقصد بظاہر مظلوموں کو انصاف دلانا ہے ،لیکن اکثر وڈیوز کے بارے میں کہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ دکھایا جانے والا واقعہ کس شہر کا ہے ،کس تھانے ،کچہری یا ہسپتال میں یہ ظلم ڈھایا گیا ہے ، بعض لوگ بلاتصدیق ہی انڈیا سمیت دیگر ممالک میں پیش آنے والے پرانے واقعات کی وڈیوز وائرل کر دیتے ہیں ،اس قسم کی وڈیوز بنانے والے بھی انسانیت اور اخلاقی اقدار سے عاری ہو چکے ہیں ، کسی ظالم کاہاتھ روکنے کی بجائے ہم میں سے اکثریت ”تماش بین” کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔
ہسپتالوں ،سنیماگھروں، پولیس،کچہری ،ہوٹلوں ، سکولوں ، کالجوں اورپبلک ڈیلنگ کے اداروں میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں سے ہونے والی ریکارڈنگ بھی سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے ،گویا عوام کی پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے ، عوام کا بھی یہ حال ہے کہ وہ موبائل اور کیمروں کے ذریعے پیدا ہونے والی خرابیوں سے آگاہی کے باوجود احتیاط نہیں کر پا رہے ، ہسپتالوں میں معائنے کیلئے آنے والی خواتین کی عزتوں کا جنازہ بھی نکالا جا رہا ہے ،لیکن ذمہ دار ادارے صورتحال سے بالکل لاتعلق ہو کر رہ گئے ہیں ۔
یہود ونصاریٰ چونکہ سوشل میڈیا پر اپنے دھندے کو چلانے کیلئے باقاعدہ پیسے دیتے ہیں ، اس لئے” فیس بک ”کے ساتھ ساتھ ”یو ٹیوب ” پر بھی لوگوں نے اپنے اپنے چینل بنا کر معاشرے کا گند وائرل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور المیہ یہ ہے ظلم و زیادتی پر مبنی اِن وڈیوز پر بڑے بڑے” فیس بکی دانشور ”لعنت بھیجنے میں لگ جاتے ہیں ، وڈیوز وائرل کرنے والاکوئی ایک بھی شخص یہ نہیں سوچتا کہ اس قسم کی وڈیوز وائرل کرکے وہ اپنے لئے کوئی بخشش کا سامان نہیں کر رہا بلکہ وہ اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے میں لگا ہے ۔
دنیا کے ہر معاشرے میں اچھائی کم اور برائی زیادہ ہو چکی ہے ، لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے ہمیں اس صدی میں جدید ٹیکنالوجی کے طفیل ایسی سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں کہ ہم لوگ خود اپنے ہاتھوں معاشرے کی منفی تصویر دنیا کو دکھا رہے ہیں ۔یہود ونصاری ٰازل سے مسلم اُمہ کی دشمنی میں پیش پیش ہیں اور اپنے انہیں مقاصد کو پروان چڑھانے کیلئے ان لوگوں نے پاکستانی مسلمانوں کو ”سوشل میڈیا ” کی صورت میں ایک ایسا ”پلیٹ فارم” دے دیا ہے کہ جہاں ہم صبح سے شام تک اور پھر رات گئے اپنے ہی معاشرے کو تسلسل کے ساتھ ”ننگا” کرنے میں تمام اخلاقی حدود و قیود کو فراموش کر چکے ہیں ۔
ظلم و زیادتی دیکھنے کے باوجود موقع پرموجود مرد حضرات میں کوئی ایک بھی غیرت مند و جرات مند پاکستانی مسلمان سامنے نہیں آتا جو کسی کی مدد کرے ،ان ”تماش بینوں”میں شاہد کوئی” مرد کا بچہ” نہیں ہوتا جوکسی مظلوم عورت کو بچانے کیلئے آگے بڑھے ، ہم موجودہ دور میںبھی کسی ”محمد بن قاسم”یا”صلاح الدین ایوبی ” کے ہی منتظر ہیںکیونکہ ہم کسی مداری کی طرح محض ”تماشا ”لگانا جانتے ہیں ، کسی کو بچانے کی ہم میں جرات ہے اور نہ ہی ہمارا ضمیر ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم اپنا فرض ادا کریں ، کشمیر ، فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوم و محکوم عوام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ظلم و زیادتی کو دیکھ کر خاموشی اختیار والوں کا ”جرم ” بھی کوئی چھوٹا جرم نہیں لیکن وڈیو بنانے والا انسان بذات خود ایک بڑا مجرم ہے کہ جو ظالم کا ہاتھ روکنے کی بجائے وڈیوبنانے میں مگن رہتا ہے ۔وڈیو میکر خود گنہگارہوتا ہے اور وڈیوکی صورت میں اس بات کا ثبوت فراہم کر دیتا ہے کہ اُس نے ظلم کی عکاسی تو کی لیکن مظلوم کی مدد نہیںکی۔سوشل میڈیا پر اس قسم کی تشدد آمیز” وڈیوز” وائرل ہونے کے بعد ہر شخص اس ظالم انسان پر”لعنت ” بھیجنے میں سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے ۔
ظالم پر لعنت تو بنتی ہے لیکن اب بندہ کس کس پر لعنت بھیجے۔۔پولیس والے پر۔۔۔ان تماش بینوں پر یا وڈیو میکر پر۔۔ اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔؟۔۔۔ہونا تو یہ چاہئے کہ کم از کم وڈیو بنانے والوں کے خلاف تو قانونی کارروائی کی جائے ، ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمات بنائے جائیں ،کیونکہ ان لوگوں کی غیر ذمہ دارانہ روش نے ہر دوسرے شہری کو” ذہنی مریض ”بنا کر رکھ دیا ہے ،کہیں کسی وڈیو میں اس بات کا ذکر نہیں کیا جاتا کہ ”ظلم کی یہ کہانی ”کس شہر یا جگہ سے ہے ،یوم عاشور پر چندبرس قبل سانحہ دارالعلوم راجہ بازارکے موقع پر بھی ظلم و زیادتی کے نام پر برما میں ہونے والے معصوم بچوں کے قتل کی وڈیوز کو اِپ لوڈ کرکے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ سب سانحہ راجہ بازار میں ہو رہا ہے ۔اس طرح کے وڈیو لیک کلچر کا مقصد سوائے پولیس ،مختلف طبقات اور اداروں کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ، کتنے ہی لوگ اس وڈیولیک کلچر کی بدولت مارے جا چکے ہیں ،اور کتنے ہی گھرانے زندہ درگور ہو چکے ہیں ۔اس قدر سنگین صورت حال کے باوجود حکومتی بے حسی اور معاشرے کے سرکردہ افراد کی مسلسل خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ۔۔کاش! ہم وڈیو لیک کلچر کے مابعد اثرات کو محسوس کر سکیں ، اب بھی وقت ہے کہ ہم حالات کی سنگینی کا ادراک کریں ، اس معاشرتی بیماری کی روک تھام کیلئے قانون سازی پر دھیان دیں اور سوشل میڈیا پر یوں لوگوں کو ”ننگا ” کرنے کی روش کی حوصلہ شکنی کریں ورنہ سوشل میڈیا پر ملنے والی” آزادی اظہار رائے و وڈیو لیکس ”کے نتیجے میں ہمارا وطن ایسے معاشرتی و غیر اخلاقی عذاب سے دوچار ہو گا کہ جس کا خمیازہ ہمارے ساتھ ہماری آئندہ نسلیں بھی بھگتییں گی۔اللہ ! ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com