تحریر: علی عبداللہ دیدہ زیب ٹی وی ٹرالی پر چمکتا ہوا ٹیلی ویژن اور اس کے سامنے سکتے کی صورت میں اک ہجوم جو کہ ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے کی چاہ میں اکٹھا ہوا ہے _ نجانے پھر کب دوبارہ یہ قسط ریپیٹ ہو ,اس لیے ہر کسی کی یہی کوشش ہے کہ ابھی ہی اسے دیکھ لیا جائے _ اسطرح کی صورتحال آج سے پندرہ بیس سال پہلے عام دیکھنے کو ملتی تھی _ یہ وہ دور تھا جب ٹی وی عوام میں نہایت مقبول تھا اور انٹرنیٹ ابھی اپنے پر کھولنا ہی سیکھ رہا تھا _ خبرنامہ ہو یا کوئی ڈرامہ, میچ ہو یا نیلام گھر, ہر شخص اسی ٹی وی کو اکلوتی تفریح سمجھ کر وقت گذاری کرتا تھا اور ٹیلی ویژن کو ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
لیکن آج جب غور کریں تو یہ مرکزی کردار کہیں پس پردہ دم توڑتا نظر آتا ہے _ ایسا دور جس میں ہماری نئی نسل ٹیلیویژن کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہے اورجہاں سوشل میڈیا اور آن لائن ویڈیوز نے مرکزی حیثیت اختیار کر لی ہے وہاں ٹی وی کو ایک ثانوی درجہ دے دینا کچھ حیرت کا باعث نہیں ہے _ ایک تحقیق کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ٹی وی پر وقت صرف کرنے کا رواج 25 فیصد تک کم ہو گیا ہے _ 2016 میں ہی آن لائن ویڈیوز اور موبائل کی سہولت کی وجہ سے صرف امریکہ میں آٹھ لاکھ چونتیس ہزار لوگوں نے ٹی وی کیبل ختم کروا دی _ چونکہ ٹی وی کی نشریات محدود ہوتی تھیں پھر بعض اوقات جغرافیائی حدود بھی کسی ٹرانمیشن کو محدود کر دیا کرتی تھی اور اس کے علاوہ ٹی وی ہر قسم کا اور ہر شعبہ زندگی کا مواد باآسانی مہیا نہیں کر پاتا تھا اس بنا پہ ً ٹیلی ویژن کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی اور اب یہ حال ہے کہ 2015 میں جب ایک سروے میں لوگوں سے ان کی پسندیدہ شخصیت پوچھی گئی تو ان کے جواب میں نہ تو کوئی فلمی ستارہ تھا اور نہ ہی کوئی موسیقار, بلکہ دس میں سے آٹھ یو ٹیوبرز تھے جو کہ یو ٹیوب پر مختلف نوعیت کی ویڈیوز تخلیق کرتے تھے۔
Social Media
سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر تخلیق کی جانے والی ویڈیوز نے ناظرین کو اتنی وسیع چوائس دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں, جس طرح کا چاہیں مواد سیکنڈوں میں دیکھ سکتے ہیں اور یہ مواد ٹی وی فراہم نہیں کر سکتا _ چونکہ عالمی ناظرین تک یہ مواد پہنچنا دشوار نہیں لہٰذا یو ٹیوب اور اس جیسے دوسرے ذرائع ہر تخلیق کار کو خود ہی پروڈیوسر, ڈائریکٹر, اور ایڈیٹر بننے کے موقعے فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آن لائن ویڈیوز اور سوشل میڈیا ایک معیشت کا روپ دھار چکے ہیں۔
درحقیقت ڈیجیٹل میڈیا اب ایک عالمی طاقت بن چکا ہے _ یہ صرف وقت گذاری یا شعر و شاعری کے لیے ہی نہیں بلکہ سیاسی, سماجی ,تعلیمی اور مذہبی نظریات کے بین الاقوامی سطح پر پرچاؤ کا ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے _ لوگ اب کسی بھی ٹیلیویژن شو یا پروگرام کے انتظار میں نہیں بیٹھتے بلکہ آن لائن ویڈیوز کی جانب دھیان دیتے ہیں اور فوری اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں _ کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر آن لائن ویڈیوز کی مدد سے نت نئے مضامین اور مہارتیں سیکھ کر منظر عام پر آ رہے ہیں _ اولمپکس میں نیزہ بازی میں چاندی کا تمغہ جیتنے والا کینیا کا جولیئس یگیوتھا نے یوٹیوب سے نیزہ بازی سیکھی تھی _ اب آن لائن ویڈیو سائٹس کتوں بلیوں کی ویڈیوز ڈھونڈنے سے زیادہ علمی مواد کی تلاش میں اہم کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں _ گھریلو آلات کی مرمت ہو یا کمپیوٹر پروگرامنگ, پینٹنگ ہو یا ڈیکوریشن غرض یہ کہ ہر شعبہ میں لوگ آن لائن ویڈیوز کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب لوگ زیادہ لچکدار اور سماجی نوعیت کے تجربات چاہتے ہیں _ شاید اسی اہمیت کے پیش نظر ہی سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے عہدہ چھوڑنے کے بعد پہلا انٹرویو بی بی سی, سی این این یا فاکس نیوز کو نہیں دیا بلکہ ان تین افراد کو دیا جو یوٹیوب پر اپنا چینل چلاتے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ دنیا کی مشہور کمپنی سسکو کا کہنا ہے کہ 2019 تک 70 فیصد موبائل ٹریفک آن لائن ویڈیوز پر مشتمل ہو گی _ اس سے آن لائن ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بخوبی اجاگر ہو جاتی ہے۔