انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر بھیجا گیا ہے تاکہ جو زندگی اسے خدا نے عطا کی ہے بہتر سے بہتر طریقے سے گزارے۔ ایک اچھے اور صحت مند معاشرے کے قیام اور قوموں کی ترقی کا راز ایک اچھی شخصیتی تعمیر، ایک اچھے کردار کی تخلیق، اپنے شعبے میں ماہر، اچھی روحانی خصوصیات اور اخلاقی صفات کی حامل زندگیوں میں پنہا ہوتا ہے قومیں انہی افراد کی بدولت ترقی سے ہمکنار ہوتی ہیں اور اسی بنا پر ان سے فطرت کام بھی لیتی ہے اور ان کو عالم میں مقام رفعت سے بھی نوازتی ہے۔
موجودہ دور جسے بلاشبہ سائنس و ٹیکنالوجی کا دور کہا جاسکتا ہے جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا ایک دوسرے سے رابطے کا ایک موثر ترین ذریعہ بن چکا ہے جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور اس پر موجود سائنس ہر میدان کے اندر حیران کن خدمات پیش کر رہی ہیں سماجی رابطے کے یہ وسائل معلومات کا خزانہ اور دنیا کو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی کونے میں چند سیکنڈوں میں اپنا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے موبائل میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے باعث پڑھے لکھے لوگ تو کجا اَن پڑھ لوگ بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ بزرگ، بڑے، چھوٹے جوان، بچہ غرض ہر طبقہ یہاں پراپنا اچھا خاصا وقت صرف کر رہا ہے سماجی رابطے کے ان وسائل کا بخار آج کل سب کو چڑھا ہوا ہے اور اس میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے بالخصوص نو عمر اور نوجوان نسل کے ذہن و دماغ پر سوشل میڈیا ایک مکڑے کی طرح جال بُن کر بیٹھ چکا ہے دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ ہو جب تک وہ اپنا کچھ وقت اس پر صرف نہیں کر لیتا اس کو چین اور سکون نہیں ملتا۔ سماجی رابطوں کے ان وسائل نے جغرافیائی سرحدوں کو توڑ دیا ہے اور ساری دنیا ایک ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے ہر روز ان میں ترقی ہو رہی ہے اور اس میدان میں سرگرم عمل ……… ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بہتر سے بہتر خدمات پیش کرنے کی سعی کر رہے ہیں تاکہ دوسروں کی نسبت انہیں زیادہ شہرت حاصل ہو اور ان کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں انٹرنیٹ اور میڈیا نے معاشرے و سماج پر کافی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں چاہے اس کا تعلق معاشرت سے ہو سیاست یا اقتصادیات سے انٹرنیٹ آج بنیادی ضرورتوں میں سیایک ضرورت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ گوگل اس میدان میں کافی اہمیت کا حامل ہے جس نے اپنی دو مقبول ترین ویب سائٹس یو ٹیوب اور آرکٹ کا آغاز کیا تھا لیکن فیس بک کے آغاز کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت کی بنا پر آرکٹ میں نوجوانوں نے دلچسپی کھو دی اور فیس بک دھیرے دھیرے اس میدان کا لیڈر بن کر سامنے آیا۔ اس کے علاوہ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی دوسری ویب سائٹس متعارف کرائی گئیں جن میں ٹویٹر، مائی سپیس، وٹس ایپ وغیرہ شامل ہیں لیکن آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ فیس بک’ یو ٹیوب (you tube) ٹویٹر (twotter) استعمال ہوتا ہے۔ انکی مقبولیت کی وجوہات میں ایک توازن کا مفت استعمال جن کے لئے سوشل میڈیا یا صارفین کو کوئی قیمت نہیں چکانی پڑتی۔ دوسری وجہ ویب سائٹس نیٹ ورکنگ سہولیات کا پایا جانا ہے جو 4G,3G کی صورت میں آپکے موبائل باآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں جن کی بدولت آپ جب چاہیں جیتے اور جہاں چاہیں کی بنیاد پر اس سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک وجہ ان ایپلی کیشنز کا آسان استعمال بھی ہے جسے ہر عمر کے افراد باآسانی کر سکتے ہیں۔ اپنے خیالات و افکار کو دنیا تک پہنچانے کے لئے یہ بہترین آلہ کار ہیں۔ جس کا فائدہ تمام دنیا کے افراد اٹھا رہے ہیں۔
ہر چیز کا مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا جہاں دنیا بھر میں پذیرائی کے ساتھ ساتھ اپنے پورے جوبن پر ہے وہاں اسکے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اسکے منفی پہلوؤں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس سے جہاں علم و معرفت کے دروازے کھلے اور معلومات کا حصول آسان ہوا ہے۔ اسی طرح عریانیت و بے حیائی کا دروازہ بھی کھولا اور …… پسندی کو ہوا دیا ہے۔
آج بدکاریوں’ جرائم اور اس جیسے منفی کاموں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جن میں دہشت گردی’ لڑکیوں کی بلیک میلنگ’ خواتین کا قتل و زیادتی’ اعلیٰ شخصیات کے جعلی اکاؤنٹس سے قابل اعتراض مواد لگانا اور پھر کام کے عوض پیسے وصول کرنا’ فیس بک’ ٹویٹر اور واٹس ایپ میں دوستی جیسے معاملات بھی سوشل میڈیا کے منفی پہلو کے مرہون منت ہیں۔ اور سب سے بڑی بات کہ والدین نے اپنے معصوم بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے باور کرانے اور سہولیات دیتے ہوئے اسکے منفی پہلو کو ذہن میں نہیں رکھا کہ یہ سماجی رابطے کے وسائل اور یہ ٹیکنالوجیز ہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں کو تیزی سے دیمک کی طرح کھا رہی ہیں اور آج کل ایک اور ایپلی کیشن ٹک ٹاک متعارف کروا دی گئی ہے۔ جس میں فحش اور ہم برہنہ لباس کی ویڈیوز بھی آرہی ہیں۔
ہماری مشرقی تہذیب اور اسلامی اقدار کے برخلاف ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو گندی اور غلیظ باتیں سنائی اور دکھائی جا رہی ہیں۔ والدین یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بچہ عام سی شرارتی ویڈیو دیکھ کر اس کی نقل اتار رہا ہے اور سب خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ کتنا ٹیلنٹڈ ہے لیکن وہ اس خوفناک حقیقت سے آگاہ ہی نہیں ہوتے کہ ان کے بچے …… گندی اور بے ہودہ ویڈیوز دیکھ کر کسی ایک ویڈیو پر رک کر اسکی نقالی کر رہا ہے اور پھر وہ ویڈیو سب جگہ شیئر کی جاتی ہے اور سب گھر والے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے ہیں۔ والدین کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ ان کا بچہ جس کو ایک گیم یا انٹرٹینمنٹ سمجھ کر دیکھا رہے۔ وہ آگے چل کر اسکا کتنا نقصان کر دے گی۔
ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک جسے پاکستان میں انٹرنیٹ’ سوشل میڈیا’ فیس بک وغیرہ سے 5 فیصد کارآمد کام لئے جاتے ہیں۔ جبکہ 80 سے 85 فیصد تک یہ صرف وقت کے ضیاع کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی ہتک نہیں کہ جہاں ان کی خامیاں ہیں وہاں ان کے مثبت پہلوؤں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اپنے کاروبار فروغ دینے میں کافی مدد ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کاروباری حضرات نئے نئے پراڈکٹ کا مفت اشتہار دے کر اپنے سامان کو مارکیٹ میں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ معلومات کا وسیع خزانہ’ تجزیے’ تبصرے سب موجود ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہم اسکو اعتدال’ عمر کی مناسبت اور ذہنی بلوغت کے ساتھ استعمال نہیں کرتے بلکہ بغیر سوچے سمجھے بروقت اس پر اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق نوجوان نسل انٹرنیٹ’ کیبل اور سوشل میڈیا پر دن میں 9 گھنٹے صرف کرتی ہے اور زیادہ تر غیر ضروری کام ہوتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بچوں کی کارآمد اور تندرست و صحت یعنی وہ سرگرمیاں جن کا تعلق ان کی پڑھائی’ ورزش’ دینی و دنیاوی علوم و فنون سیکھنے سے یہو اس میں 3 سے 4 گھنٹے تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اس وقت 67 فیصد نوجوانوں کے پاس جدید موبائل فونز موجود ہیں اور وہ ان پر اپنا قیمتی وقت جو ان کا اثاثہ ہیں کو بری طرح برباد کر رہے ہیں۔
سوشل انٹر ایکشن میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہاں اسکے نتیجے میں ہمارے مقامی کلچر کے ادارے جس میں خاندان’ حجرہ اور دوسرے ثقافتی ادارے شامل ہیں و تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق سوشل میڈیا ہر ملک ہر علاقے اور ہر قسم کے لوگ استعمال کرتے ہیں لہٰذا بچے اور جوان ذہنی بلوغت نہ ہونے اور کم علمی کی وجہ سے جھانسے میں آجاتے ہیں اپنی عمر سے بڑے افراد کے ساتھ رابطہ شروع کرنے کی صورت میں کسی وقت کسی جوان اور کم عمر بچوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بری صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تو جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق جعلی فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس اس وقت سکیورٹی رسک کی صورت اختیار کر چکے ہیں اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم کو روزانہ 6 سے 10 درخواستیں موصول ہونے لگی ہیں جن میں دن بدن خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق سائبر کرائم سے متعلق چند سال قبل بہت کم شکایات موصول ہوتی تھیں جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی لیکن اب تو ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جس میں زیادہ تر شکایات جعلی فیس بک اکاؤنٹس کے ذریعے لڑکیوں کو بلیک میل کرنے سے متعلق آرہی ہیں اسی طرح برطانوی پولیس کے مطابق برطانیہ میں سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر پر ہونے والے مبینہ جرائم پچھلے چار سال میں دس گنا بڑھ گئے ہیں۔ انگلینڈ’ ویلز اور سکاٹ لینڈ کی 29 پولیس فورسز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2012ء میں 4908 کیس درج کئے گئے ہیں جن میں سے 653 افراد کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزا سنائی گئی جبکہ صرف بھارت میں 2012ء میں 22060′ 2013ء میں 71780′ 2014ء میں 49254 اور 2015ء میں 30,00,000 سے زائد کیسز درج کئے گئے اور ان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
2008ء میں جب سوشل میڈیا پر بہت کم کچھ دیکھنے کو ملتا تھا اس وقت 556 مبینہ جرائم کی رپورٹ کی گئی جس کے نتیجے میں 46 افراد کو سزا دی گئی تھی۔ جب پیرس پر حملہ ہوا تو اس میں 130 افراد لقمہ اجل بن گئے اور رینالڈو گونز ایز کی بیٹی …… ان 130 افراد کی فہرست میں شامل تھی’ جو پیرس حملوں کے دوران مارے گئے۔ بعدازاں …… … ٹویٹر’ فیس بک اور گوگل پر دہشت گردوں کی معاونت پر مقدمہ کر دیا۔
رینالڈو کا موقف تھا کہ یہ سروسز دہشت گردوں کو پروپیگنڈہ کرنے’ دہشت گرد بھرتی کرنے اور ایک دوسرے تک پیغام رسائی میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس انفراسٹرکچر کو سپورٹ کی بدولت دہشت گردوں کو پھلنے پھولنا کا موقع ملا اور انہوں نے 13 نومبر 2015ء کو پیرس میں حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں اس کی بیٹی بھی ماری گئی۔ رینالڈو نے الزام لگایا کہ فیس بک’ ٹویٹر اور یو ٹیوب دہشت گردوں کے لئے پیغام رسانی کا ایک بڑا اور موثر ذریعہ ہے جس کی روک تھام محفوظ دنیا کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔
ان سب باتوں کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے سارے نظام کا انحصاراسی پر ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے معصوم بچوں اور بچیوں کو اپنے شیر خواروں اور نوجوانوں کو اسکے مفید و مضر اثرات سے آگاہ کریں۔ ان کی صحیح تربیت کریں انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ و روشناس کروائیں۔ صحیح تربیت اور متوازن رہنمائی کے اصول کا بنیادی مقصد انسان کو نیک و صالح بنانا اور ایسا مثالی … تیار کرنا ہے جو اپنے پیغام اور مقصد تخلیق کو پورے طور پر روبعمل لا سکے۔ اسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول ہونا چاہیے اور وہ اپنے تقرفات اور نقل و حرکت کو صحیح راہ پر گامزن رکھے۔ جس مقصد کیلئے اسے اللہ نے اپنا نائب بنا کر زمین پر اتارا ہے اس کی حقیقی تصویر ہو۔ اسکے اعمال و حرکات و محرکات اسی مقصدکی روشنی میں ہوں۔
لیکن افسوس جب ہم اغیر و باطل مذاہب اور گمراہ فرقوں کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو جو حقائق سامنے آ تے ہیں وہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دین کے بازاروں میں کھوئے سکوں کو خوب رائج کر رہے ہیں اور اسلام کے خلاف مختلف قسم ے پراپیگنڈے کر رہے ہیں۔ یہود و نصار اور انتہا پسند ہندوئوں تنظیموں نے اسلام کے خلاف شبہات پھیلانا اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ انہوں نے جو سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے مطابق سوشل میڈیا وار شروع کی ہے اسکا بنیادی مقصد ہی ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنا اور دین سے دور بدظنی ہے اور نونہالان اسلام کو اپنے سانچوں میں ڈھالنا ہے۔
وہ اپنے مقصد میں صد فیصد کامیاب ہیں۔ ہم اپنے شہروں’ قریہ قرقہ گائوں گائوں میں اسکا کھلی نظروں سے ماہدہ کر رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل نہ صرف دشمنان اسلام کی نقالی کر رہے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کر رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اپنی تعلیم و ثقافت اور دین و ایمان سے ر شتہ توڑ کر آوارگی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ان میں بے راہ روی عادت ثانیہ بن گئی ہے صلہ ر حمی کا فقدان ہو چکا ہے کوئی بھی اب اپنے عزیز و اقارب سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا۔ اسے جو بھی فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں وہ ان کو سماجی رابطوں کی اپیلی کیشنز کو استعمال کرنے میں صرف کر دیتا ہے اور دن و رات اسی میں مگن رہتا ہے۔ وہ دینداروں اور شرع حدود کی پاسداری کرنے والوں کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ شرعی قوانین و اسلامی تعلیمات پر آوازیں کستے اور بہت سے فرائض و محرکات کا انکار کر کے یا اس کو اپنے لئے جائز سمجھ کر کفر تک کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اعداء اسلام کی یلغار ہمارے کسی ایک شعبہ زندگی اور کسی ایک میدان میں ہے۔ عقیدہ تعلیم سے لے کر سیاست و معیشت سب ہی ان کی یلغار کا شکار ہیں اور ہم اسے خوشی خوشی گلے لگا رہے ہیں اور اس پر شاداں و فرحاں ہیں۔
آج اس نازک دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے کہ وہ گلے میں پڑے اس غلامی کے طوق کو اتار پھینکیں جو سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے کی صورت میں ہمارے گلوں میں پڑا ہے اپنے ہاتھ و پائوں کی بیڑیوں کو کاٹیں اور اس سے اپنے نفس پر کنٹرول کر کے خود آزادی حاصل کریں۔
مسلمانوں کے اخلاق قرآن ہونا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ کا ا ور آپۖ کے تمام صحابہ کرام کا تھا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے رسول اللہۖ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ سراپہ قرآن تھے۔ مسلمانوں کا سلوک طرز زندگی طریقہ کار اور انداز تعامل اسلام ہونا چاہیے جس میں اسلام کی عکاسی ہوتی ہو۔ ان کی شریعت اور ان کے احکام قرآن پاک ہونی چاہیے جسے ہم اپنی پوری زندگی میں نافذ کریں ہماری زندگیاں دشمنان اسلام اور تمام غیر قوموں و مذاہب کی زندگیوں سے ہر صورت ممتاز ہونی چاہیے ہمارے ظاہر و باطن پر۔ اسلام کی علامتیں تقویٰ کی نشانیاں مسلمانوں کے صفات ظاہر و نمایاں ہونے چاہیے۔
ہم قرآن اور قرآنی ادب و تعلمات پر فخر کرنے والے ہوں۔ ہمارا نمونہ اسوہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب اکرام ہونے چاہیں جنہوں نے علم کی رونی پھیلائے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور ساری دنیا کو علم و معرفت کے نور سے منور کیا۔ یہاں تک کہ ساری تہذیبیں اسلام کے دست نگر ہوگئیں۔ انہوں نے اداب و اخلاق تہذیب و ثقافت علم و ہنر تحقیق و جستجو کا گر اسلام سے اپنایا اور اس میں لگے رہے اور آج ہم اس سے غافل ہو کر ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔ ہم اسلامی تعلمات و اسکے اخلاق و اداب سے اگر مسلح ہو گے تو ہم ہر طرح کے منفی طرز زندگی اور اسلامی اقدار اور اس کی تعلیمات کے منافی باتوں کا مقابلہ کر سکیں گے ورنہ ہم ان کے لائے ہوئے سیل و رواں میں بہہ جائیں گے اور ہمارا کوئی پریشان حال نہ ہوگا ہم اگر علم کی دولت سے آراستہ قرآنی تعلیمات سے آشنا اور سنت نبوی سے رہنمائی حاصل کرنے والے ہوں گے تو ہم قوم و سماج اور ملک و ملت کیلئے مفید کارآمد اور فعال عنصر ہونگے۔
مسلمانوں کی اصل شخصیت اگر محفوظ رہتی ہے۔ اسکا روحانی و فکری منبع و سرحشمہ صاف رہتا اور غلاظتوں سے آلودہ و گدلا نہیں ہوتا۔ ہم اگر اپنی زندگی میں دین حنیف کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں۔ اسکے اونچے اقدار و اخلاق کو تھامے رہتے اور امت سلیمہ کے وجود میں اس کو راسخ کرتے ہیں تو اس امت مسلمہ کا وہ تشخص باقی رہے گا اور وہ مقصد بر آئے گا جسکے لئے اس امت کو لایا گیا ہے۔ پھر یہ امت خیر امت ثابت ہونے میں کامیاب ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس طرح ہم اپنے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو تعمیر صلاح سچائی اور ترقی خوشحالی کی دعوت دے سکتے ہیں جس کے بعد اس دنیا میں ہم الفت و پیار ہم آہنگی’ بھائی چارگی وغیرہ کے ساتھ جی سکتے ہیں اور جینے کا سلیقہ و قرینہ دوسروں کو سکھا سکتے ہیں مگر اسکے لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک اور نبی کریمۖ کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ان کی تعلیمات و سنت کو اپنائیں قرآن کریم کے احکام اور اس کی شریعت کی اتباع و پیروی کریں کیونکہ جو شخص اپنے آپ کو اطاعت کی چادر سے ڈھک لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے محفوظ قلعہ میں پناہ گزین و فروکش ہو جاتا ہے اور اسکے ایسے اجالے میں داخل ہو جاتا ہے جس میں داخل ہونے والا ہر کوئی مامون و محفوظ ہوجاتا ہے۔ آج اس دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین’ اساتذہ اور ہر فرد مسلم جن پر چھوٹوں کی تربیت و نگرانی کی ذمہ داری ہے وہ ان جدید آ لات اور ٹیکنالوجیز کے مثبت و منفی پہلوئوں سے ان کو آگاہ کریں اور عقابی نگاہیں رکھے اور انہیں اسلام کی تعلیمات کے زیور سے آراستہ کریں کہ یہی انہیں راہ سے بھٹکنے گمراہ ہونے اور دوسروں کے دام فریب میں پھینکنے سے روکنے والی چیز ہے۔
دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی سوشل میڈیا کے منفی کردار کی آگاہی اور روک تھام کے لئے عوام میں شعور اجار کرنے کی مہم کو شروع کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ٹیکنالوجی ہے جس کو مثبت طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔ جو فتنہ مغربی اقوام نے اہل مسمین کی نسلوں کی تباہی کیلئے استعمال کیا ہے اس کو روکنے کے لئے اپنی نئی نسل کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہم نے ان کو تہذیبی طور پر فتح حاصل نہیں کرنے دینی۔ ہماری نوجوان نسل میں اتنی آگاہی پیدا ہونی چاہیے کہ وہ ازخود اس بات کا انتخاب کر سکیں کہ ہم کس طرف جانا چاہتے ہیں۔ بلندی کی طرف یا پستی کی طرف’ تربیت اتنی مضبوط ہونی چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ صحیح کہنا ہے اور غلط کیا ہے۔