تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم علیم و حکیم مالک و خالق جل شانہ کی بے پناہ حمد وثناء اور تاجدار عرب و عجم جناب محمد مصطفیۖ پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد اس بندہ عاجز نے آج ایک ایسے حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس میں بال برابر بھی گستاخی پر اللہ کی طرف سے اسلام سے لاتعلقی اور رسول عربیۖ کی امت سے باہر ہونے کا احتمال ہے اللہ جل شانہ اپنے کرم سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
فیس بک پر کل ایک مفتی صاحب کی تقریر اپ لوڈ تھی جس میں انہوں نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ اور حضرت یزید جنت کے سردار ہیں سن کر روح تک تڑپ اٹھی ضمیر نام کی کوئی شئے بھی ہوتی ہے انسانیت بھی کسی شئے کا نام ہے یہ مفتی صاحب علم نہیں مسلمانوں کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ نسل یزید ختم ہوگئی ہے مگر ایسے بیانات دینے والے لوگ تو اسی مردود کی باقیات میں سے ہی ہو سکتے ہیں مسلمان کہلانے والے رسول عربیۖ کا کلمہ پڑھنے والے اور اس ذات پر درود پڑھ کر اپنی نمازوں کو مکمل کرنے والے ایک گروہ نے پہلے بھی ایک کتاب رشید ابن رشید لکھی جس پر اپنے گروپ کے متعدد علماء کے دستخط کروا کر بازار میں رکھا جس میں انہوں نے اپنے ضمیر گروی رکھ کر یزید کو امیر المومنین لکھا اور لکھا کہ امام حسین محض اقتدار کی جنگ لڑنے گئے اور شہید ہو گئے۔
صد افسوس کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں جنگل کا قانون ہے سو روپے چرانے والے جیب کترے کو پھانسی اور اربوں روپے لوٹنے والوں کو شرفاء کہا جاتا ہے اسی طرح دین سے ناواقف طبقہ اسلامی ریاست کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے اور سوشل میڈیا ہر کنجر کو مفتی بن کر واعظ کرنے کی کھلی چھٹی دیدی گئی ہے جنہیں اپنی ولدیت کا بھی درست علم نہیں ہوتا وہ بھی فیس بک پر دینی مسائل سمجھا رہے ہوتے ہیں ایسے مفتیوں کے متعلق کوئی قانون ہے اور نہ کوئی گرفت کرنے والا امام حسین کی شان کون بیان کرے جو آنکھ کھولے رسول عربی ۖکے رخ انور کو دیکھے جسے مصطفی کریم اپنی زبان چساچساکر الم نشرح کے سینہ کا علم عطا فرمائیں کندھوں پر سواریاں کروائیں اللہ کی عبادت نماز کے سجدے کو طول دے دیں کہ حسین رو نہ پڑیں خطبہ بیچ میں چھوڑ کر حسین کو سنبھال لیں۔
Hazrat Imam Hussain
تربیت کا یہ علم کہ ایک دفعہ زکوة کی کھجوروں کے ڈھیر سے ننھے حسین نے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی تو رسول کریم ۖ نے حلق میں انگلی ڈال کر نکال لی کہ یہ زکوة کا مال ہے وہ حسین جس کی سخاوت جسکی شجاعت اور علم کی مثال پوری کائنات میں نہیں ایک غیر مسلم مورخ لکھتا ہے کہ جب واقعہ کربلا ہوا تو اللہ کی پوری زمین پر حسین جیسا انسان علم میں عقل میں حسن میں کردار میں گفتار میں عمل میں اور زہد تقویٰ میں کوئی دوسرا موجود نہ تھا تاریخ ایک ایسی حقیقت ہے جسکا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ رشتہ داری جب زمین پر ایسے واقعات ہورہے ہوتے ہیں تو کچھ ہاتھ قلم تھامے انہیں پوری ایمانداری سے لکھ رہے ہوتے ہیں جو تاریخ بنتی ہے اور جب ایک غیر مسلم امام حسین کی مثل کوئی دوسرا شخص اللہ کی پوری زمین ماننے کو تیار نہیں تو مسلم کس خدا کو راضی کرنے کے لیے یزید کو باپ کہنے پر لگا ہوا ہے۔
حسین اور آپ کی اولاد کی شان یہ ہے کہ اللہ نے اپنی لاریب کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ اے میرے محبوب تم اپنی امت سے فرمادیں کہ میں تم تک دین پہچانے اللہ کی پہچان کروانے اور تمھیں ظلمتوں سے نور میں لانے کے عوض کچھ طلب نہیں کرتا سوائے اسکے کہ میری آل سے محبت کرنا (القرآن) اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول خداۖ نے اپنے ہاتھ بلند فرمائے دعا کے لیے اور فرمایا کہ اے اللہ میں اپنے اس بیٹے حسین سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر اور اس سء محبت رکھنے والے سے بھی محبت کر اور اس سے بغض رکھنے والے سے تو بھی ناراض ہو جا اب کسی کی کیا مجال کہ وہ اس فرمان کے بر عکس آپکی اولاد سے عداوت رکھے خطبہ الوداع میں رسول عربیۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں دونوں کو تھام کر رکھنا گمراہ نہیں ہو گے اللہ کی کتاب اور اپنی آل اب ہمارے ایک گروہ نے کتاب اٹھا لی اور اسکے فرامین کے برعکس آل رسول ۖ کے خلاف اول فول بکواس شروع کردی دوسرے گروہ نے آل رسول ۖکی آڑ میں نئے گل کھلانے شروع کردیے اور اللہ کی کتاب وہ کتاب جس کے دیباچہ میں اللہ نے فرمادیا کہ لا ریب اس میں کوئی شک نہیں کتاب اللہ کو غلط کہنا شروع کر دیا۔
Muharram ul Haram
کوئی بکواس کرتا ہے کہ اس کے چالیس پارے تھے کوئی کہتا ہے کہ فلاں آیئت آدھی ہے دونوں طبقے گمراہی کے آخری درجہ میں چلے گئے جب رسول خدا ۖ کا حکم دونوں سے تعلق جوڑنے کا ہے تو ایک کو رد کرکے دوسرے کو سنبھالنا بھی فضول ہے کتاب تھامنے والے گروہ نے امام حسین کو بھی نہ بخشا اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ واقعہ کربلا محض اقتدار کی جنگ تھی یزید پلید کے وہ کرتوت جو آج بھی تاریخ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے وہ انہیں نظر نہیں آتے یزید کے کردار کے متعلق ایک ہی بات کافی ہے کہ اس نے نواسہ رسولۖ سے جنگ کرکے آپ کو شہید کردیا ورنہ تاریخ کے سینہ میں تو یہ بات بھی ہے کہ یزید نے اس کے بعد مسجد نبوی پر حملہ کرکے اس میں گھوڑے باندھے تین دن تک اذان نماز نہ ہوئی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا ہزاروں عورتوں کو جنسی تشددکا نشانہ بنایا جو حاملہ ہوئیں اور حرم کعبہ کو بھی پامال کیا کیا کیا کرتوت لکھوں میں اس لعنتی کے دوسرے طبقہ نے ان مظالم کو یزید سے آگے ان صحابہ سے منسوب کردیا جنہیں اللہ نے فرمایا کہ میں تم سے راضی ہوں اور تم مجھ سے راضی ہوجائو اب جسے اللہ اپنی رضا کی سند عطا فرما دے جسے رسول اللہ ۖ اپنی رضا کی سند عطا کردیں تو ہمارا تھوکنا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہی ہے۔
دونوں طبقے ہی راہ سے ہٹ گئے ایک گروہ جس نے نہ تو کتاب اللہ کو پس پشت ڈالا اور نہ ہی آل رسول ۖ کو چھوڑا وہ گروہ ہے صوفیاء کرام کا شہنشاہ ولائت سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں شاہ است حسین پادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین سر داد نہ داددست در دست یزید حقا کہ بناء لا الہ است حسین مطلب یہ کہ دین بھی حسین اور دین کی پناہ بھی حسین سر کٹوا دیا مگر یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کی حق ہے کہ کلمہ طیبہ کی اساس ہی حسین ہیں برصغیر میں اسلام کی شمع روشن کرنے والے پہلے عظیم صوفی جب یزید اور حسین کا فرق اتنے کھلے الفاظ میں بیان کررہے ہیں تو آج کا بکائو ملاں کیا سمجھتا ہے کہ فیس بک پر ایسی بکواس سے وہ امت کے دل سے محبت حسین نکال لے گا یہ قوم بے شک بھوکی سہی روٹی کی فکر میں خدا کو بھولی ہوئی سہی مگر اس کے سینہ میں دھڑکنے والا دل محبت رسول اور آپکی پاک آل کی محبت میں دھڑکتا ہے اور انقلاب ہمیشہ بھوکے گھروں سے شروع ہوتا ہے۔ والسلام