تحریر: روشما خان عروش سارا ماحول ہی بگڑا ہوا ہے جی!نیکی کا تو زمانہ نہیں رہا ـیہ اور اس طرح کے اور بہت سے جملے ہیں جو آے دن کان میں پڑتے رہتے ہیں اگر یہ باتیں اس نیت سے کی جائیں کہ اصلاح کا کوئی راستہ دریافت کیا جائے توحقیقت یہ ہے کہ ہم یہ باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ ہم اصلاح احوال کے طالب ہیں اور اس کے لیے ہم کسی حد تک جا سکتے بلکہ صرف وقت گزاری کا شغل ہے جو زمانے کو کوس کر پورا کر لیا جاتا ہے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھا کر بعض تو باقاعدہ اس کو گناہوں کے جائز کر لینے کا ایک بہت بڑا حیلہ بنا لیتے ہیں اور اپنا دین اور دنیا تباہ کر لیتے ہیں۔
ہم اور آپ جانتے ہیں کہ معاشرہ کسی پھل پھول یا جن بھوت کا نام نہیں یہ تو ہم اور آپ جیسے انسانوں سے مل کے بنتا ہے جوں جوں انسان ملتے جاتے ہیں معاشرہ خود بخود تشکیل پاتا جاتا ہے اور یوں افراد کے مجموعے کو معاشرہ کہا جاتا ہے معاشرہ بگڑ گیا تو اس کا مطلب ہم سب اپنی اپنی جگہ بگڑ چکے ہیں ظاہر ہے بگڑے ہوے معاشرے میں سدھار کا یہ تو طریقہ نہیں کہ انسان بجاے کوئی عملی قدم اْٹھانے کے محض باتیں بنانے اور دوسروں کی پیروی کرنے میں پڑا رہے ہم نے با وجود مسلمان ہوتے ہوے اپنے ماحول اور معاشرے کو خدا اور رسول کے مقابلے میں مستقل ایک بت کی حیثیت دے دی ہے تو شاید صورت حال کی خرابی واضع ہو سکے نماز اورٹی وی وغیرہ تک کتنے کام کرنے اور نہ کرنے کے ایسے ہیں۔
Islamic Rulings
جن میں ہم نے معاشرے کی آڑ لے رکھی ہے اور اسلامی احکام کے مقابلے میں اپنے جیسے انسانوں کی خوشنودی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا ہے آپ ذرا سوچیے کہ معاشرے کے بے دین اور بد دین عناصر نے کبھی کبھی آپ کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا ہے حالانکہ اس کا تعلق آپ کے مذہب سے ہے مگر ہم بے دین عناصر کی خفگی سے ڈرتے ہوے کتنے گناہوں کا ارتکاب کر ڈالتے ہیں۔
اسی سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہم معاشرے کو خوش کرنے کے لیے اپنے رب کا حکم چھوڑ دیتے ہیں تاکہ لوگ ہم سے خوش ہو جائیں اور ہمیں کوئی ملا قسم کے لوگ نہ سمجھیں لیکن اللہ تعالی نے انسانوں کی فطرت کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ کسی نہ کسی بات پر اعتراض ضرور کر ڈالیں گے۔
ALLAH
اگر آپ نے (نعوزباللہ) داڑھی منڈھ وادی تو پھر آپ کے مسجد جانے پر باتیں بنیں گی اور اگر وہ بھی چھوڑ دیں پردہ پر باتیں کسی جائیں گی اور اگر اس کو بھی اپنے گھر سے رخصت کر دیا تو فحاشی اور بے حیائی کے کاموں میں شرکت نہ کرنے پر دقیا نوسیت کے طعنے ملیں گے غرض یہ کہ جب تک اسلام مکمل طور پر دست بردار نہیں ہو جاتے آپ غلط لوگوں کو خوش نہیں کر سکتے انسان جب اللہ تعالی کے لیے دوسری مخلوق کو ناراض کرتا ہے تو اللہ تعالی سب کی طرف سے اس کو کافی ہوجاتے ہیں اور اگر انسان دوسروں کے لیے اللہ کے حکم کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالی انہی انسانوں کے ہاتھوں اسے ذلیل کروا دیتے ہیں آئیے ہم عزم وحوصلے سے کام لیں اور اپنے معاشرے کو بدلنے کا بھر پور عزم لے کر اْٹھے اور ساری دنیا پر چھا جائیں۔