ایک ایسے معاشرے میں جہاں تہذیب کے سبھی دائرے زنجیریں بن کر صنف نازک کو جکڑ لیتے ہیں وہاں پر خواتین بھی ادب تخلیق کرتی ہیں لیکن معاشرتی حالات کے مطابق انکی آواز ایک سہمی ہوئی چڑیا کی آواز جیسی لگتی ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں بہت کم خواتین ایسی ہیں کہ جنہوں نے معاشرتی خوف کی چادر کو تار تار کر کے دلیرانہ ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عورت گوشت پوست کے ایک لوتڑے کا نام نہیں اسکے بھی احساسات ہیں۔ زندگی کو دیکھنے کا اپنا ایک انداز ہے اور اسکی زندگی بھی جذبوں کے سبھی رنگوں میں گوندہی ہوتی ہے۔
میرے سامنے نو آموز شاعرہ یسریٰ وصال کا پہلا شعری مجموعہ “وصالِ یار” موجود ہے ۔یسریٰ وصال کی پیدائش ضلع منڈی بہائوالدین کی تحصیل ملکوال کی ہے۔ابتدائی تعلیم اسلام آباد سے حاصل کی ۔گریجویشن ایف جی کالج برائے خواتین ایف سیون ٹو سے حاصل کی ۔ایم ۔ اے انگریزی ادب و لسانیات نمل یورنیورسٹی سے کیا۔ایم اے کی تکمیل کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کی اور ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی کی باقائدہ ممبر ہیں۔ان کی کتاب سے حاصل معلومات کے مطابق انہوں نے لکھنے کا باقائدہ آغاز افسانے سے کیا۔پھر نثر سے نظم کا رُخ کیا اور اب باقاعدہ غزل کہتی دکھتی ہیں۔ یسریٰ بھی اسی معاشرے کے رِیت رواجوں میںاُلجھی ہوئی ایک نازک اندام لڑکی ہے لیکن یسریٰ سے وصال تک کے سفر میں اُسے نہ صرف نوجوان لڑکیوں کے جذبات کی ترجمان بنا دیا ہے بلکہ انکی شاعری کا مطالعہ ہمیں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلاکر دیتا ہے۔ میں یسریٰ وصال سے کبھی نہیں ملا ۔ اُن سے میرا رشتہ صرف لفظوں تک ہے اور انکے یہ الفاظ میرے اُوپرانکی شخصیت کو کھول کر بیان کر رہے ہیں بلکہ یہ کہوں تو بے جانہ ہو گا کہ یسریٰ وصال نے جس دلیری کے ساتھ نسل نو کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اس نے اسے راتوں رات پروین شاکر کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
وصال یار ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو ہمیشہ اُردو شاعری کے ماتھے کا جھومر رہے گا کیونکہ یہ ایک ایسی نوجوان لڑکی کی شاعری ہے جسکی آنکھوں میں اتنے خوابوںنے آ بسیرا کیا ہے کہ وہ اسے ہر وقت بے کل رکھتے ہیںوہ آگے اور آگے بہت آگے جانے کی متمنی ہے اس کی فطرت میں قرار نہیں ہے۔
بدن دہکتے ہوئے سرد ہو بھی جاتے ہیں جلے تو اور کہا ں تک جلے شرارِ وصال
یسریٰ ملا پ کی شاعرہ ہے اور وہ ایک نوجوان لڑکی کے من میں پلنے والے جذبوں کو اس خوبصورتی سے لفظوں کا پیرہن پہناتی ہے کہ دل سے بے اختیار واہ اور آہ کی صدائیں نکلتی یں ان کے یہ شعر دیکھیئے
مرے شباب کی دوشیزگی کی سن آواز کہ چاہتی ہے بدن سے بدن کے نیاز
اسکے جذبات میں بانکپن ہے ۔ یوں دیکھائی دیتا ہے جیسے ایک الہڑ مٹیار تنہائی میں اپنے محبوب کو پکار رہی ہے۔
آمیرے پاس آ ، میرے رنگوںمیں ڈوب جا رنگ ِ ہوس کو چھوڑ کے جیسے دھنک حلال
لیکن وہ ایک مشرقی لڑکی ہے وہ اپنی حدود سے بھی واقف ہے وہ تتلیوں کی طرح ہرپھول پر نہیںمنڈلا سکتی ۔ وقت کا اُبال اگر عشق کے خمار کو کچھ زیادہ ہی بھڑکا دے تو سپیڈ بریکر بھی ضروری ہیں۔
سگنل کو توڑتی ہوئی جانے لگی وصال
لازم ہے اب ٹرین کی زنجیر کھینچئے
نمونہ کلام وہ میری نظروں سے نظریں ملا کے دیکھتا ہے کہ جیسے بار میں ٹکرا رہے ہوں جام سے جام
طرح طرح سے دھڑکتا رہا ہے چاہت میں مگر وْہی دلِ ناداں ، وْہی دلِ ناکام
دھرم ہے میرا تو صاحب کی بندگی کرنا وہ دور ہو کہ وہ نزدیک ، دل اْسی کے نام
تعارف اِتنا ہی یْسریٰ وِصال کا ہے بہت وہ شعر کہتی ہے ، رکھتی ہے ، اپنے کام سے کام