معاشرے کو سکون کی تلاش

Society

Society

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

ملک میں طویل عرصے سے جاری سنگین سیاسی صورتحال ، حصول اقتدار کی جنگ میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات ، اور ملکی اداروں کے درمیان تناؤ کی صورتحال نے معاشرے کا سکون تباہ و برباد کر دیا ہے۔ چپقلش کی اس صورتحال میں ملکی ترقی شدید مثاتر ہوئی ہوئی ہے، غربت و مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے ، اقوام عالم نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرلیا ہے، اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان غریب پاکستانی کا ہوا ہے جوکہ بھرپور محنت و مشقت کے باوجود خوشحالی کی بجائے مہنگائی کا شکار ہورہا ہے، اس صورتحال کے باعث معاشرے میں بے سکونی اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود بے سکونی، بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ غیر منطقی طور پر بہت زیادہ سیاست زدہ بن چکا ہے۔ سکون کے متلاشی ہمارے معصوم لوگوں کو کوئی جمہوریت میں سکون کے سبز باغ دکھاتا ہے تو یہ اس کے پیچھے چلنے لگ جاتے ہیں۔

جب جمہوریت میں سکون نہیں ملتا تو آمر ان کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں، اور جب کوئی نظر نہیں آتا تو یہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں، دنیا کا کوئی معاشرہ ہمیں اپنے ملک کی طرح سیاست زدہ نظر نہیں آتا۔ جب ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں تو عوام اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں اس کے بعد یہ منتخب نمائندوں کا کام ہوتا ہے کہ اسمبلی میں عوام کی نمائند گی کریں اور اپنے سیاسی اور ملکی مسائل کو اسمبلی میں زیر بحث لاکر انہیں حل کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں،اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے سیاسی یا ملکی مسئلے پر عام لوگوں کا سیاست پر بحث مباحثے کرنااور ضرورت سے ذیادہ دلچسپی لینا کیا معنی رکھتا ہے، ہمارے ملک میں ایک عام شہری بھی ملکی سیاست پر بڑی بڑی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، بازار ہوں یا تفریح گاہ الغرض کہ ہر جگہ ملکی سیاست زیر بحث رہتی ہے جن لوگوں کو سیاست کا مفہوم تک نہیں معلوم وہ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی مباحث میں الجھے نظر آتے ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل عوام کے پاس کب ہے؟ سڑکوں پر سیاسی جماعتوں کے آئے دن دھرنوںاور جلسے اور جلوسوں نے سارے معاشرے کو سیاست زدہ بنادیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کا عمل سست رہا ہے، ارا کین اسمبلی و حزب اختلاف ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل کے حل میں مثبت تجاویز پیش کرنے کی بجائے ذاتی اور پارٹی مسائل پر ذیادہ توجہ دیتے نظر آتے ہیں ۔

لیکن اب الیکشن 2018 ء کے بعد معاشرہ انتشار کا خاتمہ اور سکون چاہتا ہے۔ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی چاہتا ہے ،ہمارے ملک میں عوام کی بے چینی اور بے اطمینانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو انصاف یا تو ملتا ہی نہیں ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو وہ بروقت نہیں ملتا۔ اس میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اکثر انصاف کا طالب شخص اس دنیا سے ہی گزر جاتا ہے۔ جرم چھوٹا ہو یا بڑا، نا انصافی پر متاثرین کی داد رسی اگر وقت پر ہو جائے تو شہریوں میں اضطراب اور بے چینی کی صورت بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے۔ عوام پاکستان بیرونی قرضوں سے نجات اور مہنگائی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر افراد ، امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہاہے۔ اس صورت حال نے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے بلکہ مختلف جرائم کو پیشے کی شکل بھی دے دی ہے اور لا قانونیت کے مظاہرے اکثردیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔

ایسی صورتحال نے معاشرے سے سکون اور چین کو ختم کردیا ہے۔ ہمارے ملک میں اجرتوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں کے درمیان تناسب بھی عدم توازن کا شکار ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مزدور کی جو کم سے کم ماہانہ تنخواہ مقرر ہے وہ اشیاء کی قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ لوگوں کی مادی زندگی کی طرف اندھی دوڑ ہے۔ کم تنخواہ والا بھی اعلیٰ فریج، ایل ای ڈی ٹیلی ویژن اور مہنگے سمارٹ فون کے بغیر زندگی گزارنے پر تیار نہیں اور جن کی تنخواہیں یا آمدنی معقول ہیں ان کی اکثریت بھی ایسی پر تعیش زندگی بسر کرنے کی عادی ہوچکی ہے کہ اپنی جائز آمدنی کے ساتھ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کیے بغیر ان کا گزارہ نہیں، یعنی قناعت ختم ہوگئی ہے۔ جبکہ آج اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کے نصاب تعلیم میں ایسے موضوعات اور علمی مباحثوں کو شامل کیا جائے جس سے پاکستانی طالب علموں میں حب الوطنی، ایثار اور پاکستانی قومیت کے جذبات میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کیا جاسکے اور انہیں بلند کردار پاکستانی بنایا جاسکے تاکہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں تو جرائم اور ملک دشمن سرگرمیوں سے محفوظ رہیں۔

ہمارے اکثر ٹی وی ڈرامے جس قسم کی طرز زندگی، عالیشان مکانات اور رہن سہن دکھاتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں عام آدمی کو میسر نہیں ہیں۔ ان ڈراموں نے ہمارے نوجوانوں میں خصوصاً احساس محرومی کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اور ان کی اکثریت شارٹ کٹ سے ایک ہی رات میں امیر بننا چاہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے انہوں نے جائز، ناجائز اور اچھائی اور برائی کی پہچان ہی ختم کر ڈالی ہے۔ اگر ہمارے ٹی وی چینلز ایسے بامقصد پروگرام پیش کریں جن سے لوگوں کی کردار سازی ہو ان میں صبر، استقامت، شکر، ایمانداری اور حب الوطنی کے اوصاف اور جذبات پیدا ہوں تو اس سے معاشرتی بے چینی اور بد نظمی میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔ جبکہ الیکشن 2018 ء کے بعد ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے، جب ان معصوم بے چین انسانوں کو سکون کی تلاش میں معاش، مکان، پرسکون نیند، گیس، بجلی اور تحفظ ملنے لگے گا تو ان کی سب سے بڑی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے گی، حقیقی جمہوریت اس وقت قائم ہوگی جب کوئی جماعت مارچ کی دعوت دے کر انسانوں کا ہجوم اکٹھا نہیں کر پائے گی اور کسی جمہوری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ اور پاکستانی قوم بلا خوف و خطر ترقی کے سفر پر گامزن ہوگی، الیکشن 2018 ء کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت کو چاہئے کہ عوام میں بے چینی، احساس کمتری اور احساس محرومی کو فروغ دینے کی بجائے ان کے لئے آسانیاں اور احساس تحفظ پیدا کرے تاکہ عوام پاکستان سکھ کا سانس لے سکیں۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033