تحریر : محمد ریاض پرنس معاشرہ ہمیشہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے مگر معاشرہ ہے کیا اس کا مطلب کم لوگ ہی جانتے ہیں سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ الفت ان دنوں کی بات ہے جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے ۔معاشرہ جس کا مطلب اکھٹے رہنا ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنا کے ہیں مگر اب ہم نے اس کا مطلب ہی تبدیل کر دیا ہے ہم نے امیر،غریب،اونچ،نیچ،کو معاشرے کا نام دے دیا ہے ایک وہ وقت تھا جب لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو اکرتے تھے ۔امیر اور غریب کو برابر سمجھا جاتا تھا۔اور اب اس سائنسی دور میں معاشرے کاہر فرد پڑھا لکھا ہے وہ جاہلیت کے دور سے بھی نیچے گر گیا ۔معاشرے کی ترقی کے ہمارا کردار یہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے کام آسکیں۔ اور معاشرے کی بہتری اور ترقی کے لئے کام کر سکیں۔ معاشرے کی ترقی کے لئے بھائی چارہ سب سے بہتر عمل ہے ۔ اس سے آپ اپنے اردگرد کے لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اردگرد کیا کچھ ہو رہا ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو معاشرے کاہر فرد اس بات پر رو تا ہو انظر آئے گا کہ حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ مگر اس بات کو کوئی بھی نہیں جانے گا کہ ان حکمرانوں کے ساتھ ہم بھی برابر کے شریک ہیں اب اس بات کو لے لیں کہ آج سے کوئی پندرہ سولہ سال قبل ہر گھر میں ایک فرد کماتا تھا اور اس گھر کے بیس لوگ کھاتے تھے ۔ مگر اب ایسا کیوں نہیں ہوتا اب تو سارے گھر کے فرد کماتے ہیں اور پوری پھر بھی نہیں پڑتی۔اس کی سب سے بڑی وجہ ہم نے اپنی شناخت ہی کھو دی ہے صرف اپنی” میں ”میں اور اپنے بڑے پن کی وجہ سے ۔ہمارے رزق میں برکت نہیں رہی ۔ معاشرے کا پر فرد بس پیسہ پیسہ کر رہا ہے ۔ مگر جس نے ہم کو رزق دینا اس کو ہم بھول بیٹھے ہیں ۔ جس نے ہم کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ ہم کو عطا بھی کر رہا ہے ۔مگر پھر بھی آج ہم اس کو بھول کر رزق کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ بھائی ہم سب غلطی میں ہیں ہمیں اس خدا کی عبادت کرنی چاہئے اور اس سے مانگنا چاہئے جس نے ہم کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔
ہم اللہ اور رسول ۖ کو ماننے والے ہیں مگر بہت افسوس کہ ہم رسول اللہ ۖ کے طریقوں کو چھوڑ کر جاہلیت کے دور میں چلے جارہے ہیں اب ہر گھر میں ٹی وی،موبائل انٹرنیٹ ضروری ہوتا جا رہا ہے ۔اور کیبل کے بغیر تو ہمارا گزارا ہی نہیں ۔ہم کو دو وقت کی روٹی بھلے ملے یا نہ ملے مگر موبائل میں بیلنس ،گھر میں کیبل ضرورہونی چائیے۔نماز کی طرف ہم لوگ جاتے نہیں ہمارے شہروں گائوں کی مسجدوں میں کوئی نمازی نظر نہیں آتا اور ہم کہتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔او بھائی دعائو ں میں اثر ہو تو قبول ہوں ۔ہم نماز کے لئے وقت بڑی مشکل سے نکالتے ہیں ۔جب اللہ سے بھروسہ ختم کر کے انسان سے بھروسہ لگائیں گے تو ایسا ہی ہو گا ہمارے معاشرے میں ہو کیا رہا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون بنا ہوا ہے ۔موجودہ معاشرے میں اگر کسی امیر لڑکے یا لڑکی کی شادی ہو تو اس میں لاکھوں روپے کے کپڑے زیورات اور دوسرے اخراجات کر دیے جاتے ہیں ۔ اور کی اور اس شادی میں صرف بڑے لوگوں کوہی مدعو کیا جاتا ہے۔جو لاکھوں کا کھانا کھانے نہیں آتے بلکہ اس کو ضائع کر نے کے لئے آتے ہیں۔
Hazrat Mohammad PBUH
اس وقت ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی ۖ نے تو ایسی کوئی رسومات نہیں کی۔ ان سے عظیم تو نہ اس دنیا میں کوئی آیا اور نہ کوئی آئے گا۔اور ہم فضول خرچی کیے جا رہے ہیں۔اگر ان فضول رسومات پر جو پیسے خرچ کر رہے ہیں اگر ان میں سے کچھ پیسے ہم کسی غریب کی بیٹی کی رخصتی پر خرچ کر دیں گے تو کتنا اچھا ہوگا ۔ایک غریب کی بیٹی کا گھر بس جائے گا ۔اللہ اور اس کا رسول ۖ بھی راضی ہو جائے گا۔ معاشرہ میں بگاڑ اس وقت پیدا ہو تا ہے جب ہم اپنی رسمو ں کو چھوڑ کر دوسروں کی رسموں کو اپنا نا شروع کر دیتے ہیں اگر اپنی حیثیت اور طاقت کو دیکھ کر ہر کام کو کر لیا جائے تو اس میں ہمیشہ فائدہ ہی ہو گا ۔ اور اگر دوسروں کو دیکھ کر بڑھ چڑھ کر دیکھاوے والا کام کریں گے تو اس میں نقصان اپنا ہی ہو گا دوسروں کا کچھ نہیں جائے گا۔ اس معاشرے کے اندر بہتری لانے اور اس کو سنوارنے کے لئے بھائی چارے کا درس دینا چاہئے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر اس کے غم کو کم اور اس کی خوشی کو دبالا کرنا چائیے۔
معاشرے کو بگاڑنے میں حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہو تا ہے ۔کیونکہ حکمرانوں کے وعدے عوام کو مایوس کر دیتے ہیں جس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔حکمران ووٹ تو لے جاتے ہیں مگر ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو ان کو اقتدار میں پہنچاتے ہیں ۔ اگر آج ہمارے معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تو اس کی اہم وجہ ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں ہیں جو ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں ۔اگر ہمارے حکمران عوام کے مسائل کو وقت اور بہتر طریقے سے سر انجام دیں تو تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے ۔ مگر بے روزگاری ،لوڈشیڈنگ دن بدن بڑھ رہی ہے ان کو کنٹرول کر نا کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کو کوئی سمجھ ہی نہیں رہا ۔بجلی آئے یا نہ آئے مگر بل ہر ماہ ہزاروں میں آئے گا ۔مگر یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا۔
میں تو اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر معاشرے کو برائی اور معاشی مسائل سے بچانا ہے تو امیر اور غریب کا فرق ختم کرنا ہو گا ۔ ہم کو صرف اس بات کی فکر ہو نی چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں با کردار بچے پیدا ہوں جو معاشرے کی تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرسکیں تب ہی ممکن ہے اگر ہمارا معاشرہ ترقی کرے گا تو ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔اس ملک کے ہر فرد کو معاشرے کی بہتری کے لئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور ہر فرد کو یہ ذمہ داری لینے کی ضرورت تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ معاشرے کی ترقی کے لئے ہمارے قائدنے کیا خوب فرمایا ہے ۔ ہمارے عظیم قائد نے خطبہ صدارت دستور سازاسمبلی 1947ء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔