جاپانی معاشرہ جابان میں منشیات نوشی کو بتدریج ختم کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔یہاں تک اب منشیات کا استعمال عام شاہرائوں اور عوامی مقامات پر سگرٹ نوشی سخت منع ہے۔اب تو اس حدتک منشیات سے نفرت جاپانیوں کے دلوں میں بٹھادی جاچکی ہے کہ وہ خود اپنے گھروں میں بھی منشیات کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کو سخت ترین جرمانوں اور سزا کا سامنا کرنا پڑسکتاہے کہ جرمانے کی ادائیگی اور سزاکو کاٹنا انسان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔سگرٹ نوشی کے خاتمے کے لیے ٹی وی چینل اور دیگر ذرائع ابلاغ عوام میں پے درپے شعور و آگہی پیدا کرتے رہتے ہیں۔اور منیشات نوشی کے مضمرات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں۔اب تو زمانے کے گزرنے کے ساتھ سگرٹ نوشی کو ایک قابل تعزیر جرم سمجھا جاتاہے۔
ایک پاکستانی دوست نے بتایا ہے کہ وہ ابھی امریکہ سے آیا ہے وہاں سگرٹ کا استعمال کرنے والے پر لازم ہے کے عوامی مقامات سے 1500میٹر دور جاکر سگرٹ نوشی کرے ،اس کے بعدوہ اپنے دفتر یا کاروباری مرکز میں آکر کام کرسکتاہے۔ایک خاتون نے بتایا کہ اس کو دل میں درد محسوس ہوا کہ سانس لینا بھی دشوار ہوگیا تو ہسپتال میں جاکر معائنہ کرایا تو معلوم ہوا کہ سگرٹ کے دھوئیں نے اس کے پھیپڑوں اور سانس کی نالیوں کو متاثر کیا ہے۔حالانکہ وہ خود سگرٹ نوشی نہیں کرتی تھی ۔جس کی بناپر دفتر میں سگرٹ نوشی کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے گئے۔بہت سے ممالک میں سگرٹ نوشی کرنے والوں کیخلاف سخت قانون سازی کی جاچکی ہے۔جس کی بدولت اب ان ممالک کے باسیوں کی صحت کی صورتحال بہتر ہوچکی ہے۔اس وجہ سے کینسر کے مریضوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔اسی طرح دل کی بیماریاںاور جوڑوں کی کمزوری اور بلڈپریشر کے امراض میں بہت حدتک کمی واقع ہوچکی ہے۔
مسلمان معاشرے میں منشیات نوشی کی جاتی ہے۔باوجود اس کے کہ شریعت اسلامی میں منشیات کے استعمال کی سخت ممانعت آئی ہے اب تو طبعی طورپر ثابت ہوچکاہے کہ سگرٹ نوشی کینسر کی بیماری کا پہلا سبب ہے۔اسی طرح دل، معدہ اور بلڈپریشر وغیرہ کی بیماریوں کا موجب ہے ۔اس کے ساتھ ہی منشیات کے استعمال کی وجہ سے پیسوں کا ضیاع ہوتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال و متاع زندگی کو خوشگوار طورپر بسر کرنے کے لیے عنایت کیا ہے۔نہ کہ لہو و لعب امور اور فضولیات میں پیسہ کو خرچ نہ کیا جائے۔ایسے لوگوں پر دنیا میں شدید مشکلات و عذاب نازل ہوگا کہ وہ پیسہ کو ضائع کررہے ہیںتاکہ انسان راہ ہدایت پر لوٹ آئے اور منشیات نوشی سے اجتناب کرکے خود کو صحت کے اعتبار سے بہترپاسکے۔
دین اسلام انسانوں کی زندگی کو بہتر طورپر زندگی کو بسرکرنے کی تلقین کرتاہے۔ اور زندگی کو کسی بھی طرح لہوولعب سے احتراز کرنے کی تاکید کی ہے۔ جیسے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”زمین کی خشکی و تری کے اندر فساد انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی بدولت وقوع پذیر ہوتاہے”۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسانوں کو پیدا کیا تو اس میں اس بات کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ انسان اپنی حیات کو بے فائدہ بلکہ جان بھر سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ تو انسانوں پر اپنی نعمتیں نازل کرتے ہیں تاکہ انسان اس سے استفادہ کرے نہ کہ اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال کر زندگی کی خوبصورت شمع کو مسل ڈالے۔
غیرمسلم تو منکرات کو اپنے معاشرے میں سے ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیںعلم و معرفت اور شعور اجاگر کرنے اور قانون سازی کے ذریعہ سے مگر اسلام نے تو انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے جیساکہ رسول اللہۖکا ارشاد ہے کہ”نہ کسی کا نقصان کرے اور نہ کسی کو اپنا نقصان کرنے دے”۔مسلمانوں کو تو حکمم دیا گیا ہے کہ وہ سماج کی حفاظت و بہتری کو لازم پکڑے تاکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خرابی و بدی پیدا نہ ہوسکے ۔اسی لیے نبی اکرمۖ نے انسانوں کو منع کیا ہے کہ پانی کھڑا ہو یا بہتا ہوا اس میں پیشاب نہ کیا جائے۔کیونکہ پانی کو خراب کرنا بدترین جرم ہے۔
اور اسلام نے تو اس قدر اہتمام کیا ہے معاشرے کی بہتری و حفاظت کا کہ اس بارے میں حکم دیا ہے نبی اکرمۖ ”اگر قیامت قائم ہوجائے اور آپ کے ہاتھ میں زمین کا ایک حصہ تو لازم ہے کہ اس کی آبیاری کرے ”کیونکہ زرخیزی طبعی ماحول میں فساد کو روکتی ہے۔کیا ہم اسلام کے متعین کردہ اصول حفاظت معاشرہ پر عمل کر رہے ہیں۔