تحریر: رانا ابرار اس وقت دنیا میں 1200 سے اوپر تعداد کے لوگ اسوقت ارب ،کھرب پتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے مطلب کہ کچھ لوگ روز بروز امیر ہو رہے ہیں اور اکثر غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت سالانہ اوسطاً 6 لاکھ بچے صرف کھانہ نہ ملنے یعنی بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں ۔بھوک کی وجہ سے ہر 5 سیکنڈ بعد ایک بچہ مر رہا ہے ۔یونیسیف کے مطابق22000 بچے روزانہ بھوک سے مر رہے ہیں۔اس وقت کرہ ارض پر موجود تقریباً 7ارب لوگوں کی ضرورت کے مطابق خوراک موجود ہے پھر بھی ہر 7 میں سے 1 فردرات کو بھوکا سو رہا ہے۔
بیسویں صدی سے تا حال پوری دنیا کو سب سے زیادہ فکر ہتھیار سازی کی ہے۔ اورسرد جنگ عروج کی طرف رواں دواں ہے، جتنی مقدار میں ہتھیار بنائے جا رہے ہیںاور ان پر جتنا خرچ ہو رہا ہے اگر ہم وہ سن لیں تو عام بندہ پریشان ہو جائے یہ کیا ماجرہ ہے لیکن دوسری طرف صرف اسلحہ سازی میں تھوڑی سی کمی مقدار کر دی جائے تو ترقی یافتہ اقوام ترقی پزیر ممالک کی مدد کر سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہونا یہاں پر بھوک صرف طاقت کی ہے اور آگے بڑھنے کی اسکو آزادی کہتے ہیں جس میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور نہ ہی کوئی قانون ہے کیوں کہ وہ تو پچھلی صدی سے گھر کے کھیت کی مانند ہے جس طرح چاہا بنا لیا جس طرف چاہا موڑ لیا۔ “ICAN” جوہری
Nuclear Weapons
ہتھیاروں کی روک کی انٹرنیشنل کمپین کے مطابق دنیا میں لاکھوں لوگوں کے بھوکے ہونے کی وجہ جوہری ہتھیاروں پر خرچ رقم ہے جس کی شرح خرچ 300 ملین یوایس ڈالرفی یومیہ ہے ۔ خواراک تو بہت ہے پوری دنیا میں لیکن پیسہ نہیں ہے ۔اب اس کو کیسے خریدا جائے؟اس کی وجہ سے یہ لوگ مزید کمزور ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ خوراک ہوتی نہیں اور اسکی کمی کی وجہ سے بیمار ہو تے ہیں اور اس کے بعد نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ کسی کام کے قابل نہیں رہتے اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔متبادل سرمایہ دار طبقہ ساری دنیا کا پیسا دونوں ہاتھو ں اور جھولیوں کی بدولت اس طرح لوٹ رہا ہے جیسے شادی بیاہ میں مراثی حضرات کو ویلیں ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کوان بھوکے ننگے لوگوں کی اتنی فکر لاحق ہے انکو خوراک تو مہیا نہیں کرتے لیکن “یونائٹیڈ نیشن فوڈ پروگرام” کی شکل میں کام مہیا کر رہے جو چلنے پھرنے سے اوازار ہیں ان سے پھر زیادہ کام کے بدلے خوراک دے رہے ہیں۔ جو شخص کام کے قابل نہیں اسکو پھر میٹھا زہر کام کے ساتھ خوراک دیا جا رہا ہے ۔ حالاں کہ چاہئے یہ کہ انکی خوراک کی کمی پوری کی جائے تو ایسا نہیں ہو گا یہ قواعد وضوابط کے خلاف ہے ۔ایک اور مزے کا پروگرام ہے خاص کر بچوں کے لئے “فوڈ فار ایجوکیشن ” کیسا بھونڈا اور عجیب مذاق ہے تعلیم حاصل کرنے آئیں گے تو خوراک ملے گی وجہ ! تو اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں اس کے بدلے انکی تربیت کی جائے گی غربت سے بچائو کیسے ممکن ہے ۔ اس وقت دنیا میں ایک ارب لوگوں کو صاف پانی کی سہولت میسر نہیں اور دوسری طرف کچھ لوگوں کے کتے بھی فلٹرڈ پانی سے نہاتے ہیں دوہرا معیار ۔کہاں ہے ۔آزادی ؟
پوری دنیا کا چھوتھا حصہ تعداد لوگ یعنی 1.6ارب بغیر بجلی کے زندگی گزار رہے ہیں ٹیکنالوجی کے اس انقلابی دور میں ابھی تک بجلی کی یہ صورتحال ہے ۔دنیا کے 80 فیصد لو گ فی شخص 10 ڈالر کے اندر گزارا کر رہا ہے ۔”یونائٹیڈ نیشن فوڈ پروگرام” کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ اموات بھوک کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ دنیا کافی مقدار میں خوراک پیدا کر رہی ہے جو ہر شخص کا پیٹ بھر سکتی ہے ۔ورلڈ ایگری کلچر 30 سال سے آج تک فی شخص کے لئے17 فی صد زیادہ کیلریز پیدا کر رہی ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ زمین اور آمدنی ہے ۔ جہاں پر وہ رہ کر اس سے خوراک حاصل کر سکیں یا خرید سکیں۔
World Bank
ورلڈ بینک کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ” “unequal income distribution ہے ۔ اور پوری دنیا میں اور کچھ خاص ممالک میں تقسیم آمدن کا فقدان ہے بوجہ تضاد ۔ تضاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ایک نظام فٹ نہیں بیٹھ رہا جو اس تقسیم کو متوازن کر سکے جس سے تمام لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور سب کو کھانے کے لئے روٹی ملے ۔2014ورلڈ ہنگر اینڈ پوورٹی فیکٹ اینڈ سٹیٹسٹکس کے مطابق(ورلڈ ہنگر ایجوکیشن سروس):۔
“Harmful economic systems are the principal cause of poverty and hunger” اس کے مطابق اس تقسیم کا اختیار ایک مائنر طبقے کے ہاتھ ہے جس کی وجہ سے صورت حال تشویش ناک ہو چکی ہے اور مذید بھوک بڑھ رہی ہے ۔یعنی کہ ورلڈ اکنامک سسٹم انصاف کی خاصیت سے عاری ہے۔دنیا کے اس اکنامک سسٹم میں بھوک مزید بھوک کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے لیکن کچھ لوگوںکے ہاتھ میں سارے وسائل اور آمدنی ہے ان کے ہاں وسائل اور آمدنی مزید بڑھ رہی ہے۔اب بجائے اس کے کہ اس پر قابو پایا جا سکے لیکن ایسا کرنے میں ناکام ہیں۔
“UNEP” یونائٹیڈ نیشنز انوائرمینٹل پروگرام کے مطابق خوراک کا 1.3بلین میٹرک ٹن(ایک میٹرک ٹن 1000کلو گرام )حصہ ایک دن کا ضیاع ہے ۔ اندازے کے مطابق یہ پوری دنیا کی خواراک کی پیداکاری کا تیسرا حصہ ہے ۔اس کے سب سے بڑے ذمہ دار ملک امریکہ اور برطانیہ ہیں جہاں ایک دن میں 222ملین میٹرک ٹن خوراک کا ضیاع ہو رہا ہے اور جو کہ پورے افریقہ کے لئے کافی ہے ۔ اب مجھے ایمان داری سے کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کیا یہ ترقی یافتہ ممالک انصاف ہے ؟؟؟۔ انصاف وہ کریں بھی کیوں !!! کیوں کہ وہ تو انفرادیت پسند ہیں۔ کہاں ہے انسانیت کس چیز کا نام انسانیت رکھ لیا ہوا ہے ۔یہ ہے جی دنیا کا کامیاب ترین نظام جو معاشی بدحالی کی انتہاہی صورت حال تک آن پہنچا ہے ۔اب معاشرے کا فرد بے بسی نہ محسوس کرے توپھر کیا کرے ؟۔