معاشرے میں برائیاں ایسے پھیلتی جا رہی ہیں جیسے شہر کی گلیوں میں کوڑا اور بچے۔ گلیاں ہی نہیں سڑکوں اور فُٹ پاتھوں پر پھلوں اور سبزیاں بیچنے والوں نے ایک گند مچایا ہو اہے۔ بس سٹاپوں پر کھڑی ہوئی ریڑھیاں بس کی جگہ کھڑی رہتی ہیں۔ اور ہر طرف گند پھیلا کر مکھیوں اور مچھروں کو گھر مہیا کرتی ہیں۔ گندے مچھروں اور مکھیوں کے بیٹھنے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں آلودہ ہو جاتی ہیں ۔ جس سے اکثر مسافر متاثر ہوتے ہیں۔ کسی کو پیٹ کی بیماری لگ جاتی ہے۔ تو کسی کو قے آنا شرو ع جا تی ہے۔ علیحدہ منڈیاں ہونے کے باوجود پھل اور سبزی والے بس سٹاپوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ اور انہیں کی دھکم پیل کی وجہ سے اکثر ویگنوں ، بسوں والے بس سٹاپ کی اصل جگہ سے آگاہ ہی نہیں ہوتے اور مسافروں کو ویگنوں کے پیچھے اتنا بھاگنا پڑتا ہے کہ تھوڑا اور بھاگیں تو ان مسافروں کی منزل آجائے۔
اسی طرح غُربت نے اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ آپ بازار میں ہوں یا اپنی شاپ میں بس سٹاپ پر ہوں ، آفس میں ہوں، سکولوں کالجوں میں یا سیر کرنے نکلے ہوں ہر جگہ فقیر آپ کو سلام کرتا ہو ملے گا۔ اب فقیر تو خیر امیروں کی پیداوار ہے جو غریبوں کے حق مار کر ایسی شان سے پھرتے ہیں کہ ان پر تو کوئی شک بھی نہیں کر سکتا کہ انہوں نے کبھی کوئی چیونٹی بھی ماری ہوگی۔ بلکہ یو ں کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ مُلکِ پاکستان کے چپے چپے پر پیشہ ور بھکاریوں کی بھر مار ہے اور ہمارے ملک میں یہ ایک پیشہ بن چکاہے۔ جن نوجوانوں کو ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی ملازمت نہیں ملتی وہ عنقریب اس میں بھرتی ہونا شرو ع ہو جائیں گے
Terrorists
ایسے لوگوں کو ارباب اختیار پکڑنے سے ڈرتے ہیں جو چوری ڈکیتی ، راہزنی، قتل و غارت، لوٹ مار، دھوکہ دہی ، دہشت گردی، تیزاب گردی، اغواء برائے تاوان، بجلی چوری،سرکاری لکڑی چوری، پانی چوری، سرکاری املاک کا نقصان اور منشیات فروشی و شراب کشید کرنے کے کاروبار کرتے ہیں۔ حالانکہ پولیس ان کے اڈے تک جانتی ہے۔ مگر ان کو روکنے یا رنگے ہاتھوں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کرتی۔ کیوںکہ ان کی یہ ہمت منتھلیاں دے کر ختم کر دی جاتی ہے اور جرائم پیشہ عناصر دن دیہاڑے دندناتے پھرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سینما، تھیٹر، کیبل اور ڈش بھی ایک بہت ہی زبردست بُرائی ہے اور کوئی بھی اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا تا۔ آخر سینما گھروں، تھیٹروں اور کیبل و ڈش وغیرہ سے ملک کو کیا حاصل؟ عدالتوں میں انصاف صرف نام کا ہے۔ اگر کوئی انصاف کے حصول کے لیئے عدالت کا رُخ کار ہی لیتا ہے تو وہ ساری زندگی عدالت میں ہی گزار دیتا ہے۔ کیوں کہ عدالتوں کا اپنا نظام ہے۔ عدالتیں بھی آخرکیا کریں ۔ ذیلی تھانوں سے چالان ہو کر آنے والے سو فیصد ملزمان میں سے پچانویں فیصد ملزمان بے گناہ ہوتے ہیں۔ کئی ذاتی اور سیاسی رنجشوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں تو کئی لسانی اور مذہبی بنیادوں پر پھنس جاتے ہیں۔ ہماری پولیس جُرم کے مرتکب اصل ملزموں کو پکڑنے اور انہیں چالان کرنے سے گریزاں ہے۔ امیر تو خیر انصاف مٹھی میں دبائے پھرتا ہے۔ مگر غریب انصاف کے لیئے ترس جاتاہے۔ ہم اپنا مقصد زندگی بھلائے بیٹھے ہیں۔ آئو مل کر عہد کریں کہ ہم سب مل کر اپنے پیارے دیس پاکستان سے تمام بُرائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ تا کہ ہمار وطن عزیز امن کا گہوارہ بن کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔ لیکن یہ کب اور کیسے ہو گا مجھے اس لمحے کا انتظار رہے گا٭
Mubarak Shamsi
تحریر: سید مبارک علی شمسی ای میل ایڈریس۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com