گزشتہ اَدوار میں جب معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا اور معاشرے میں برائیاں اور منفی رویے عام ہونے لگتے تو اللہ رب العالمین ان کے سد باب کے لیے کسی نبی یا رسول علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث فرماتا۔یہ سلسلہ ازل سے جاری تھا اور بنی نوعِ انسان کے پہلے فردحضرت آدم علیہ السلام کی حیثیت بھی ایک پیغمبر کی تھی۔یہ سلسلہ یونہی جاری وساری رہا اور بعض روایات کے مطابق کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں مبعوث ہوئے اور پھر ارض وسماء نے وہ وقت بھی دیکھا جب نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰۖ اس دنیا میں تشریف لائے اور آپۖ کے نورسے معاشرے کی تمام ظلمتیں چھٹ گئیں اور ہر طرف نور ہی نور چھا گیا۔ آپۖ کے رحلت فرما جانے کے بعد معاشرے کی اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کے ہر فرد کے کاندھے پر آگئی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا اس اُمت پر یہ خصوصی فضل و کرم رہا کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں ایک جماعت ایسی ضرور موجود رہی جویہ فریضہ بخوبی سر انجام دیتی رہی۔
موجودہ دور میں بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اپنے تئیں معاشرے کی اصلاح اور معاشرہ میں پنپتی برائیوں اور اخلاقی گراوٹوں کی بیخ کنی کے لیے شب و روز کام کررہے ہیں۔انہی لوگوں میں شمار ہوتا ہے سفیان علی فاروقی کا جن کا تعلق ایک بڑے مذہبی خانوادے اورصوبہ پنجاب کے علاقے سمندری سے ہے۔ فیس بک کی توسط سے ان کی چند تحریریں پڑھنے کا موقع ملا تو وہ تحریریں دل کوگھر کرگئیں۔ ان سے رابط ہوا تو معلوم ہوا کہ موصوف اردو ترویج کے لیے بھی بڑے زوروشور سے کام کررہے ہیں اور ”تحریک ترویج اردو پاکستان” کے چیئر مین بھی ہیں۔جب ان رابطوںمیں تسلسل آیا تو موصوف راقم الحروف کی دعوت پر لکھاریوں کی معروف ادبی تنظیم”آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن” سے منسلک ہوگئے او رآج کل اس تنظیم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہیں۔
گزشتہ دنوں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ایک ادبی نشست میں سفیان فاروقی نے جب اپنے پانچ کتابچے راقم الحروف کو پیش کیے تو کتابچوں کے نام دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔اس لیے کہ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر راقم الحروف گزشتہ ایک دہائی سے قلم کشائی کررہا ہے۔ ”ریگزارِقلم” کا عموی عنوان تمام کتابچوں کی پیشانی پر چمک رہا ہے۔تفصیل میں جائے بغیران کتابچوں کے صرف نام اور ذیلی عنوانات بیان کرنے سے ہی ان کتابچوں کی اہمیت قارئین پر واضح ہوجائے گی:(١)اسلام کیا چاہتا ہے؟ اس کتابچہ میں پانچ ذیلی عنوانات ہیں:اسلام اور عالمی امن’ اسلام:حقوقِ نسواں کا سب سے بڑا علم بردار’تفریح:اسلام اور عہد جدید’حقانیت اسلام:غیر مسلموں کی نظر میں’اسلامی خارجہ پالیسی اور اسلامی ممالک۔(٢)سیرت النبیۖ خوبصورت زندگی کا نصب العین۔اس کتابچے کے ذیلی عنوانات یہ ہیں:حب رسول ۖکی اہمیت’رسولِ رحمتۖ’رویے ہمارے پیغمبرۖ کے’ رہبر عالمۖ غیر مسلموں کی نظر میں’ معیارِانسانیت’اُمت مسلمہ کی سب سے اہم ضرورت۔(٣)قومی مسائل کا حل سیرت النبیۖکی روشنی میں۔اس کتابچے میں درج ذیل موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے:ہمارے زخموں کو مرہم سیرت النبی ۖکی ضرورت ہے’ سیرت النبیۖ میں پنہاں ہمارے مسائل کا حل’ قومی مسائل اور اُسوہ نبویۖ’ حکمرانی اور رعایا پروری کسے کہتے ہیں؟سیلابی سیاست۔(٤)نظامِ تعلیم و تربیت۔اس کتابچے میں درج ذیل عنوانات پر قلم کشائی کی گئی ہے:کیا ہمارا نظام تعلیم معیاری ہے؟سچ کی تعلیم وقت کی اہم ضرورت’ فارغ اوقات کو قیمتی کیسے بنائیں’خواتین ٹیچر کے بڑھتے مسائل’ کند ذہن اور مغرور بچوں کو تعلیم کیسے دی جائے’ عدم برداشت کا عفریت اور تعلیم الاخلاق۔(٥)کامیاب معیشت اور اس کو لاحق خطرات۔اس کتابچے کے ذیلی عنوانات یہ ہیں:اسلام کے چند معاشی قوانین’ملاوٹ’ کمزور معیشت اور بنیادی معاشی مسائل’کرپش کی اقسام’اثرات اور حل’کامیاب بزنس پارٹنر اور کامیابی کے اصول۔
سفیان علی فاروقی کے لکھے ان پانچ کتابچوں کے مجموعی تاثر کو ایک جملے میں اگر میں بیان کرنے کی کوشش کروں تو بغیر کسی مبالغہ آرائی کے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ تمام تحریریں اُس حکم الٰہی کی تعمیل میں لکھی گئی ہیں جو سورہ آلِ عمران کی آیت١٠٤ میں مذکور ہے:”اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں’ نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں!”سفیان فاروقی دراصل اسی جماعت کے فرد ہیں جنہوں نے اپنے قلم کو بھلائی کا پیغام دینے پر مامور کردیا ہے۔ اُن کے تحریریں نیکی کی راہ سجھاتی ہیں اور برائی کی نشان دہی کرکے’ اُس راہ پر جانے سے روکنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔اصلاحِ معاشرہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مبارک کام موصوف نے اپنے قلم کی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا ہے۔اس پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور شاباش دیتا ہوں اس لیے کہ ہمارا تو کام ہی اچھے کام کرنے والوں کو شاباش دینا ہے۔یقین مانیں کہ سفیان فاروقی جیسے لوگ ہی ہمارے معاشرے لیے صحیح معنوں میں ”روشنی کی کرن” کی مانند ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے:”یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی”۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ سفیان فاروقی کے قلم میںمزید طاقت اور تاثیر پیدا کرے تاکہ وہ اپنا کام اور بہتر طریقے سے سرانجام دے سکیں۔