تحریر : جنید رضا قبل از 14 ٔصدی اہل عرب اور اہل عجم ُضلم وبربریت کے گھٹا ٹوک اندھیرے میں غرق تھے ہر سمت اور ہرراہ انسانیت کی پستی نظر آتی تھی بیٹیوں کا پیدا ہونا انکے لے شرم اورعار کی بات تھی زمانہ بھر جہالت کا علیل تھا، قتل و قتال کی وباء کادور دورہ تھا عورتوں کو پائوں کی جوتی کی نوک سے تشبیھ دی جاتی تھی ان پر ظلم و ستم کے پھاڑ توڑے جاتے تھے انکے درست حقوق و فرایض سے مرد ناآشنا تھے مرد تو دور کی بات عورتیں کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ انکے کیا حقوق و فراض ہیںنفس پر ستی اہل عرب وعجم کا شعار تھا، شیراب نوشی کالبریز جام تمام ،بد فعلوں کا منبح ومہمور تھا ،پانی کا متبادل جام شراب ہوا کرتا تھا۔
جب کاینات ہستی میں (سراج)چراغ اوروہ چراغ جو منیر(روشن)اور ابدی روشنی کا حامل ہے، وہ چراغ جس نے کاۓنات میں پہیلے ہوئے ظلم وعناد.جبر وبربرےت ،قتل وقتال اورجہالت کے گھٹا ٹوک اندہرے میں ڈوبے ہوے معاشرے پر چراغ ابدی روشن کیاتو کایناتِ دنیا کے ہر فردنے دیکھاکہ مشرق سے مغرب تک شمال سے جنوب تک جس سمت نگاہ جاے زمانہ ھدایت کی روشنی سے منور ہوا۔محمدرسولُ اﷲۖ کی ذاتِ اقدس نے دین اسلام کا علم اٹھایا اور اسکی سربلندی کے لے ہرممکن جدوجہد کی۔
لسان کُل گواہِ نبوّت ھے مشکل تھے جو راستے وہ آسان ہوگے دشمن بھی یہ دیکھ کر حیران ہوگے رکھاجب میرے نبیۖنے زمانے میں قدم توپتھر بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگے
سرورِ کایناتۖ نے آنے والی انسانیت کے ہر فردِآخر تک چرا غِ ابدی کو روشن کیا اوروہ چراغ دینِ اسلام کی صورت میں تھا، لیکن بد قسمتی سے آج ٠٠٤١ سال بعد اُسی دین اسلام کواوراسکے متوالوں کومسخ کرنے کی نکا م کوشش کی جارہی ہے اورمغربی ہتکنڈے اس پیشِ رفت کے سربراہی میں مزن ہیں..اورجذباتِ رذیلہ مسلمانوں کے خلاف ہے.انکی منشاء اور مراد مسلمانوں کی پستی ہے.آپنی تمام قوّت مسلم معاشرے کے بگاڑکیلے صرف کرتے ہے .یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان مغربی طرزوانداز کی پیروی کرنے کو اپنا وقار سمجھتے ہیں۔
Society
آج دور جدید کے س برقی دور میںنئی نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی شریعت مطھّرہ کو چھوڑ کر اِن نئی ایجادات اور نئے طرزوں انداز کو جو مغربی ممالک اور انکی اقوام کی پیداوار ھے .انکو اپنا لیا غیروںکے طریقوں کو اپنا سمجھا مصطفیۖ کی لائی ہوئی شریعت کے متبادل اشیاء کو لایا گیا اور ایسے متبادل آلات کی طرف رُخ پذیری ہوئی جسکی وجہ سے مسلمان جو ایک کلمہ کا داعی تھا وہ مغربی نازونیم کا پرچار کر بیٹھاانکی شیطانی چالوں کا شکار ہوا، سازوں موسقی کی دُھن میں مست ہوکر قرآن کی تلاوت کو چھوڑ بیٹھاجس گھر کی رونق قرآن کی تلاوت تھی وہ موسقی کی نظر ہوئی،، جن محفلوں میں ذکر خُدا اور ذکر مُصطفیۖ کیا جاتا تھا وہ محفلیں رکس وجام کی محفلوں میں تبدیل ہو گئں۔
مغربی فنون کا نام لیکریونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے قائم کئں جھاں مدارس کے وہ طلباء جو اپنے خفیف سینوں میں علمِ نبوت کو اٹھائے پھڑتے ہیں انکے لئے دہشتگردی کو منسوب کیا اور فنون حاصل کرنے والے طلباء جوعلم دین سے ناآشنا ہیں اُنھوں نے بغیرعلم کے اِن وارثان نبوت سے اپنے دالوں کو میلا کیا ”جن عورتوں کی زینت اُنکے گھر کی چار دیواری ہوتی تھی اُنھوں نے مغرب کے عمل کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے آپ کو بے پردہ روڈ اور بازار میں پھروایا۔
یہی تو بات ہے اور وہ کلام ہے جو لسان نبوت سے جاری ہوا”’من تشبّھ بقومٍ فھو مِنھم”'(جس نے جس قوم کی مشابھت اختیار کی کل بروز محشراُسی کے ساتھ انجام ہوگا) آج ہم نے سنّت نبوی کو چھوڑا اور اغیار کے طریقوں کو اپنا یا اور آج ہمارے معاشرئے میں زوال کا جو دور دورہ ہے وہ ہمارئے اپنے ہی اعمال ہے.لیکن آج ہم اگر خُداکی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ہر مسلمان دین کا داعی بن جائے تو معاشرئے کا سارا بگاڑ ختم ہو جائگا۔
شاعر اقبال تڑپ اُٹھا اور گلزار کہکشاں جڑ دئیے ” خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ” ” نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا ”