معاشرہ کو کون بنائے گا

Society

Society

تحریر : وقار احمد اعوان
زندگی بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے ۔؟جس طرف دیکھو افراتفری ،بدامنی اور بے چینی کی فضا دیکھنے کومل رہی ہے۔معاشرہ کے دواہم کردار ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر تلے ہوئے ہیں،دنیا کے سامنے جینے مرنے اور ایک ساتھ زیست کا کٹھن سفر طے کرنے والے یکا یک ایک دوسرے کے ابدی دشمن بن جاتے ہیں۔ایک طوفان سا دیکھنے کوملتا ہے اور پھر سمندرکی جھاگ کے جیسے سب کچھ بیٹھ جاتاہے،جڈبات پر قابو پالیا جاتاہے اور پھر پچھتاواساری زندگی کا روگ بن جاتاہے۔یارا۔۔ہم بھی کتنے بدھوںہیں جو آپ جناب کو صرف معاشرہ کا ایک روپ دکھا نے کی کوشش کررہے ہیں۔کیونکہ معاشرہ میں اچھائیاںبھی ہیں پیاروں۔۔جیسے۔۔بچہ ،بچی کسی کے آنگن میںجنم لیتے ہیں۔۔دیکھتے ہی دیکھتے ان کے قد کاٹ کچھ اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ والدین کو ان کی شادی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ایسے میں کبھی لڑکا حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیتاہے تو کبھی کسی کے گھرکی لکشمی کو بھگا کرخاندانوںکی عزت دائو پر لگادیتاہے۔دوسری جانب عورت ذات جسے معاشرہ کا معصوم کردار کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا (مردحضرات سے معذرت کے ساتھ)کیونکہ عورت ہی ہمیشہ مرد کے ہاتھوںکا کھلونا رہی ہے ،لیکن ایسا خال خال ہی ہے۔دنیا اور خاص طورسے ہمارے معاشرہ میں مرد حضرات عورت کی عزت وتعظیم میںاپنا تن من دھن بلکہ سب کچھ قربان کرجاتے ہیں۔لیکن اگر عورت اپنے مردوںکو قدر نہیں جانتی تو جیسے بقول شاعرکہ

جب سے عینک لگی نظروالی
زہر لگنے لگی ہے گھروالی

والے شعرباآسانی ذہن میںگردش کرنے لگتے ہیں۔تاہم ہمارے معاشرہ میں ایسی عورتیں بھی بہ کثرت پائی جاتی ہیں جو مردوں کی ایک لمحہ کے لئے بے عزتی اور بے توقیری برداشت نہیںکرسکتیں۔انہی چند عورتوںکی اکٹھ گزشتہ روز پشاورکی معروف جامعہ (شہید بے نظیر یونیورسٹی پشاور) میںمنعقد ہوئی۔ہرچند کہ مذکورہ اکٹھ میں خواتین مردوں کے معاشر ہ کے لئے موجودہ کردارسے نالاں نظرآئیں،ان کے مطابق آج کے مرد عورت کوان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔انہیں وراثت سے یکسر محروم کردیتے ہیں،انہیں دیوارسے لگانے میںذرا برابر دیر نہیںکرتے۔تاہم اس کے جواب میں یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرخدیجہ عزیز کاکہنا تھاکہ” میں بحیثیت عورت ایسے الزامات کو یکسر مسترد کرتی ہوں کیونکہ میں خود ایک پختون معاشرہ میں پلی بڑھی ہوں ،میں آج مقام پر ہوں اپنے والد،بھائی اور شوہر کی وجہ سے ہوں ۔انہی کرداروںکی بدولت آج میں معاشرہ کی عزت دا رخاتون کہلاتی ہوں۔میںان کے تعاون کے بنا کچھ نہیں”۔نہ صرف یہ بلکہ اکٹھ میںشریک خاتون کی اکثریت اپنے والد ،بھائی اور بیٹوں کے بھرپور دفاع میںموجود تھیں،ان میں کسی کو بھی ان کی عزت سرے محفل تارتار گوارہ نہ تھی،اور ہوتی بھی تو کیسی کیونکہ وہ ایک پختو ن معاشرہ میں سانس لے رہی ہیں۔

انہیں ان تمام روایات کا لحاظ پاس ہے کہ جس سے جڑ کرہی وہ معاشرہ اوردنیامیںترقی کرسکتی ہیں۔یادرہے کہ خاتون کی مذکورہ اکٹھ پاک کونسل آف ورلڈ ریلجنز(PCWR)کے بینر تلے بڑی تند دہی اور دلجوئی سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان خواتین میں مختلف یونیورسٹیز کی پروفیسرز، لیکچرز اورسکول وکالجز کی پرنسپلزشامل ہیں۔معاشرہ کو جہاں خواتین کی ترقی وبہبود کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم کی اشدضرورت ہے وہاں پی سی ڈبلیو آرکی سرکردہ خواتین اپنے اپنے طور معاشرہ کے امن میں مثبت کرداراداکررہی ہیں۔یقینا آج کے اس پژمردہ معاشرہ کو کچھ ایسی ہی باصلاحیت خواتین کی اشد ضرورت ہے کہ جن کے مثبت کردارکی بدولت معاشرہ ترقی کے منازل طے کرسکتاہے۔یہ خواتین اپنے اپنے شعبہ میں امن کے پیغام کو پھیلنے میں سرگرداں ہیں،انہیں معاشرہ کو صحیح سمت دینے اور اسے پٹڑی پر لانے کا گر اچھے سے آتاہے۔وہ آج کی ان تمام متنشر خواتین کو راہ راست پر لانے کی خواہاں ہیںکہ جن سے نسل نو نے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔بہرحال معاشرہ جہاں مرد کاہے وہاں عورت کا بھی ہے۔

اگر تو مرد اپنے حالات کا سنوارچاہتاہے تو اسے ضروربالضرور اپنے ساتھی کردا ریعنی کا بھر پور ساتھ دینا ہوگا۔اسے عورت کی حیثیت تسلیم کرنا ہوگی۔اسے عورت کے وجود کو وہ جلا بخشنا ہوگی کہ جس کی بدولت عورت امن کے پیغام کوپھیلانے میں دقت محسو س نہ کرے۔آج کا مرد تعلیم یافتہ ،سمجھ دار اور خودمختار تبھی اپنے آپ کو مان سمجھ سکتاہے جب اسے عورت کے مختلف کردار کو سمجھنا ،ماننا اور تسلیم کرنا اچھے سے آتاہو۔اسے ایک کامیاب مرد بنانے میں عورت کے مختلف کرداروںکوملحوظ خاص رکھنا ہوگا تاکہ عورت اسی ایک خوشی کو اپنے جینے کامقصد سمجھ کر اس کی مزید معاون ومددگار ثابت ہوسکے۔ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی اپنے مختلف کرداروں کی حقیقت کا سمجھنا اورتسلیم کرنا ہوگا،اگر وہ ما ں کے روپ میں بیٹے کی خوشی چاہتی ہے تو اسے ساس کے روپ میں بہو کے وجود کو تسلیم کرناہوگا۔۔اگر وہ سکھ وچین کی زندگی چاہتی ہے تواسے بیٹی کی تربیت کچھ اس ڈھنگ سے کرنی ہوگی کہ جس سے وہ کسی گھر کی لکشمی کہلائے ۔تبھی ہمارامعاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔بصورت دیگرکیا ہوگا ہم سب جانتے ہیں۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان