تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ The media and nation rise and fall together کسی بھی قوم یا معاشرے کی راہنمائی کا فریضہ اہل قلم ہی ادا کرتے ہیں۔ یہ صاحبان علم و دانش ہی ہوتے ہیں جو عام افراد کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح قیادت کرتے ہیں جیسے وہ میر کارواں ہوں۔ کسی بھی قوم کی حالت اور کردار کا جائزہ اس قوم کے ادیبوں، صحافیوں اور دوسرے اہل قلم کے نظریات اور کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی قوم کے اہل قلم لالچ، خوف، دباوٴ یا کسی بھی غرض کی پروا نہ کرتے ہوئے حق اور سچ کی آواز بے خوف ہو کر بلند کررہے ہوں تو اْس قوم کو کوئی مرعوب نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ قوم زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے۔
اگر کسی ملک و قوم کی کے دانشور مالی مفادات، مراعات اور لالچ میں آکر قصیدہ گوئی اور خوشامد کا راستہ اپنا لیں یا خوف اور دباؤ میں آکر حق بات کرنا چھوڑ دیں تو تباہی اُس قوم کا مقدر ہوتی ہے۔ قرآن حکیم جو انسانوں کے درمیان رنگ، نسل یا کسی اور اعتبار سے کوئی امتیاز اور فضیلت نہیں کرتا لیکن صرف علم کی بنیاد پر وہ فرق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے ۔ ایک اور مقام پر کہا کہ جس بات کا علم نہ ہو اسے اہل علم سے پوچھ لو۔ اہل علم کو قرآن حکیم علماء کے نام سے پکارتا ہے۔ صحافی، ادیب،استاد، علماء، دانشور اور دوسرے اہل علم اس لحاظ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں انسانیت کے نام رب کائنات کے آخری پیغام کی پہلی وحی بھی علم کی فضیلت اور اہمیت اجاگر کرتی ہے۔
Pen Writing
پہلی نازل ہونے والی سورہ العلق کی تیسری آیت الذی علم باالقلم سے قلم کی اہمیت واضع کرتے ہوئے رب العزت نے فرمایا کہ انسان کو یہ صلاحیت دی کہ وہ تحریر کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچائے۔ نزول کے اعتبار سے قرآن حکیم کی دوسری سورہ القلم ہے اس کی ابتداء ہی میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ن والقلم۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم کو کیوں اتنی اہمیت دی ہے۔سوچنے اور تدبر کا مقام ہے کہ کہ خالق کائنات نے کیوں ایسا کہا ہے اور اس کے تناظر میں اہل قلم کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ یہ اُس کتاب کی ابتداء ہے جس کے نزول نے عرب کی فضاوٴں میں ایک انقلاب بھرپا کردیا تھا۔
قلم اور اظہار بیان کی اس اہمیت کے بعد ہمارے میڈیا میں ہمارے اہل قلم کے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ حرمت قلم کے امین ہیں۔ اس فہرست میں صحافی، ادیب، شعراء، ٹی وی اینکر، تجزیہ نگار اور ماہرین سب آجاتے ہیں۔ کیا وہ قلم اٹھانے اور بولتے وقت اس ذمہ داری سے آگاہ ہوتے ہیں اور کیا وہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا اور ہمارے بہت سے اہل قلم اور اینکر اپنی تحریوں اور تبصروں میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہر کسی کی نظریاتی یا فکری وابستگی کسی نہ کسی جماعت یا نظریہ سے ہوسکتی ہے لیکن انہیں اس طرح بھی ہونا چاہیے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آئیں اور ایسا محسوس ہو کہ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کے ترجمان ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں کالم نویس، تجزیہ نگار اور اینکرز کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی حمایت میں اس شدت دے لکھتے ہیں کہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کے پروپوگنڈا سیکریٹری ہوں۔جس کے حامی ہوتے ہیں اُس کی تعریف میں حد درجہ تک غلو اور جس کے مخالف ہوں اُس کی نہ صرف اچھی بات سے صرف نظر بلکہ حسد اور جھوٹ کا سہارالیں۔ کیا اہل قلم کا کردار ایسا ہونا چاہیے ۔ کیا وجہ ہے کہ زرد صحافت اور لفافہ صحافیوں کی اصطلاح گردش میں رہتی ہے۔
Journalism
سرکاری یا غیر سرکاری اداروں اور شخصیات سے مفادات حاصل کرنے والے اہل قلم اس مقدس شعبہ کی بدنامی کا باعث ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر جانبدار کالم نویس، تجزیہ نگار اور اینکرزخال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دشمن کے ساتھ بھی عدل کا حکم دیتا ہے۔ عدل کا معنی یہ ہے کہ جو چیز جس مقام کی مستحق ہے اُسے وہی مقام دی جائے۔حامی ہو یا مخالف ، قلم عدل کے مطابق اٹھنا چاہیے اور تحریر میں انصاف کی عکاسی ہو۔ اسی طرح قرآن حکیم نے غلو سے بھی منع کیا ہے۔ تحریر میں غلوہونا حکم الہی کی خلاف ورزی ہے۔ اپنی حامی جماعتوں اور شخصیات کی تعریف کرتے وقت غلو سے اجتناب کرناحرمت قلم کا تقاضا ہے۔
درباری اور خوشامدی طرز عمل غلو کا ہی نتیجہ ہے۔ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے اہل قلم کو مسترد کریں جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہ رکھتے ہوں اور جو غلو کا شکار ہوں۔ ایسے اہل کی قلم کی پزیرائی کرکے وہ اُن کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ اہل قلم کو دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا کہ جس قلم کی قسم خدا نے کھائی ہے اس کے کیا تقاضے ہیں اور اُن کی کیا ذمہ دارایاں ہیں۔