حکومتوں کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ انصاف بلا امتیاز ملے ملک مين ہونے والی وارداتوں اور قتل وغارت گری نے ملک کو تباہ اور برباد کر دیا جرم کی نوعیت جس طرح کی ہو اس کے مرتکب لوگ آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں کبھی ان کی پشت پناہی اعلی عہدہداران کرتے ہیں اور کبھی لوگوں کی جان ومال کے تحفظ پر مامور لوگ ان کے ساتھ مل کر آگ اور خون کی ہولی کھيلتے ہیں
جب تک مجرم سزا نہ پائیں گے تو جرم کرنے والے دلير رہين گے اور جرم بڑھتے رہین گے –اگر قتل کے مرتکب پھانسی کی سزا پائیں گے تو شائد اتنا بڑا جرم کرتے کوئی اپنی سزا پانے کا بھی سوچ لے اسلامی قانون تو ریاست کے تمام شہریوں بلا تخصیص رنگ ونسل اور مذھب سب کے ساتھ ایک جيسا برتاؤ کرنے کا سبق دیتا ہے تبھی تو عادل اور منصف حکمرانوں نے کامياب حکومت کیں
محمد بن قاسم ہندو راجہ داہرکے ظلم کی شکار ایک عورت کے پکارنے پر اس کی مدد کے لئے سندھ تک آگیا مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگير کے دور حکومت کا واقعہ ايک ہندو مذھب کی عورت سے انصاف کرنے کے لیے اسلام کی عدل اور مساوات کی بہترین مثال ہے
ايک ہندو پنڈت رام لال کاسی جو بنارس مين رہتا تھا اس کی بیٹی شکنتلہ انتہائی خوبصورت اور نوجوان تھی اس وفت حکومت کی طرف سے ابراہيم خان نامی کوتوال شہر آیا تھا جسے اہستہ آہستہ ہوس پرستی اور عیش پرستی کی عادت پڑ گئی خوبصورت لڑکیوں سے زبردستی نکاح کر کے ان کی معصوم عوتون سے کھیلتا تھا اس کو پتہ چلا کہ شہر مين حسن کی دیوی شکنتلہ رہتی ہے جس کے حسن کی مثال نہین ملتی کوتوال نے پنڈت لال رام کو بلوایا اور کہا کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے
دس دن مين اطلاع دو اس کے بعد ميرے کارندے خود تمہاری بیٹی اٹھا کر لے آئیں گے پنڈت بہت پریشان ہوا گھر آکر بات کی شکنتلہ نے سن کر کہا کوتوال شہر سے مہینہ کی مہلت لين اور ميرے لئے شہزادوں کی پوشاک دستار اور گھوڑا خريد لائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کوتوال نے مہلت دے دی پوشاک اور دستار پہن کر شکنتلہ کئی دن کے سفر کے بعد جمعتہ المبارک کو دہلی کی شاہی مسجد پہنچی شہنشاہ اورنگ زیب بھی اپنے مصاحبون کے ہمراہ نماز ادا کر کے نکلے تو سيڑھیوں پر سب فریا دی اپنی عرضياں پیش کرنے لگے آخری سيڑھی پر خوبرو شہزادہ تھا دیکھتے ہی صاحب بصيرت مسلمان بادشاہ پہچان گیا
سپاہی کو حکم دیا شہزادے کو محل لے جاؤ اور ميرے دربار مين پیش کرو بادشاہ نے اپنے مصاحبوں اور وزيروں کو دربار برخاست کرنے کا کہا –بادشاہ نے سب سے پہلے اس کو چادر دے کر کہا بیٹی دستار اتار کر اس کو اوڑھ لو عورت کو اجنبی مردون کے سامنے بے نقاب نہین رہنا چاہيے – یہ سن کر شکنتلہ کی آنکھون ميں آنسو آگئے-
King Crown
اس نے اپنی داستان سنا کر بادشاہ سے کہا بيٹی کہا ہے تو اس کی لاج بھی رکھیں – بادشاہ نے تسلی دیکر کہا تم ميری رياست میں ايک غير مسلم شہری ہو تمہارا تحفظ ميرا فرض ہے مقرہ دن تم شادی کر کے کوتوال کے گھر چلی جاؤ ھم خود اپنی بیٹی کی شادی میں آئين گے شکنتلہ حيران پريشان آئی سارا واقعہ سنایا
والدين نے بیٹی کے یقين کو ديکھ کر بيٹی کو رخصت کر ديا کوتوال اپنے محل کے باہر فقیرون اور محتاجون پر اشرفيان نچھاور کر رہا تھا ايک فقير نے خاص سخاوت کی درخواست کی اس نے ھاتھ بھر کر اسے ديا فقير نے سر اٹھا کر پھر مانگا کوتوال نے غور سے ديکھا بادشاہ وقت کو اس حلئے مين ديکھ کر اس کے ہوش خطا ہو گئے وہ تھر تھر کانپنے لگا اتنی دير میں بادشاہ کی ہدايت کے مطابق فوجی دستے پہنچ گئے
بادشاہ نے حکم ديا اس عياش نے اسلامی حکومت کی عزت پر حملہ کیا ہے اور اسلام کو رسواء کرنے کی جسارت کی ہے اس لئے دو مست ھاتھيوں کے پاؤں کے ساتھ زنجيروں سے باندھ کرھا تھيون کو مخالف سمت دوڑایا جائے تاکہ اس اسلام کے گستاخ کا انجام سب ديکھیں چنانچہ ايسے ہی کیا گیا اور اسلام کے عدل اور مساوات کو سب نے اپنے سامنے ديکھا
بادشاہ نے شکنتلہ کو اسکے گھر باعزت پہنچایا اور کہا اب بیٹی مجھے پانی پلاؤ مين اس دن سے پیاسا ہون میں نے قسم کھائی تھی جب تک اپنی بیٹی کو انصاف نہين دلواؤن گا پانی نہين پيون گا یہ تھے اسلامی رياست کو کاميابی سے چلانے والے حکمران آج ڈھونڈھے سے بھی ايسی مثال کہیں نہين ملتی-عدل وانصاف کے لئے کمیٹياں بنانے کی ضرورت رہتی ہے ملک تباہ ہوگيا دھشت گردوں کے ھاتھوں ليکن افسوس 2008 سے اب تک ان دہشت گردون کو کوئی سزا نہين دی گئی-
Peshawar Incident
ہر حکومت اور انٹيلی جینس ادارے ملک اور شہريون کو تحفظ دينے مين ناکام رہے ہيں جب ملک مين انصاف نہين ہو گا تو امن کيوں کر ممکن ہو گا سانحہ پشاور کے بعد قوم مزيد اتنے نقصانات کی متحمل نہين ہو سکتی خدارا اس ملک کو اور اس کی عوام کو تحفظ دیں