تصوف کا لفظ اسلامی معاشرے میں داخل ہو اور اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ کچھ یہ کہتے ہیں کہ یونانیوں سے یہ لفظ حاصل کیا گیا کہ ان کے نزدیک صوفیا کا کلمہ حکمت و دانشمندی سے محبت ہونے کو تعبیر کرتاتھا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ لفظ تصوف لیا گیا ہے نفس کی صفائی سے بہرحال یہ کلمہ چاہئے حکمت کے معنی میں ہوں یا پاکیزگی و صفائی سے متعلق مگر اب یہ اسلامی شریعت میں جگہ حاصل کرچکاہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ و رابطہ سمجھا اور مانا جاتاہے۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تصوف کا لفظ بول کر اس سے مراد ناچ گانے یا قوالیوں میں گم سم ہواجائے۔اور نہ ہی تصوف سے وابتگی کے بعد دنیا کو مطلق ترک کرنے کی ریت ڈالی گئی اور اس کو علم و معرفت کے ذرائع کا دشمن سمجھا جائے۔
مسلمان تو تصوف کے اس معنی سے واقف ہیں کہ اس سے مراد زہد و تزکیہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کے استعمال کے وقت مبالغہ آرائی و جھگڑے سے محترز رہے کیونکہ دنیا کی حرص و ہوس انسان کو کبھی پرسکون نہیں رہنے دیتی۔بہت سے لوگ ہیں جو عہد ے و منصب اور مادی چیزوں پر جان نچھاور کرتے ہیں ۔دنیا کی عیش و عشرت میں گم سم ہوجاتے ہیں۔مال حاصل کرکے یا گاڑیاں لیکر دوسروں کو خیرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا بدیہی نتیجہ حاسدین کا ظہور میں آجانا فطری امر ہے کہ ہر ایک خواہش کرتا ہے کہ جو اس کے پاس ہے میری ملک میں آجائے۔دنیاکی حرص و ہوس ایک ایسی دلدل ہے کہ اس سے انسان کبھی بھی نہیں نکل پاتایہاں تک کے زندگی کا اختتام ہوجاتاہے۔گویا لالچ و طمع نے انسان کے وقت کو برباد کردیا اور قبر میں پہنچ کر پچھتاتاہے جس کا کوئی فائدہ نہیں قرآن کریم میں سورة التکاثر میں اسی مضمون کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح مسلمان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم ہمیں کبھی نہیں دیا بلکہ حکم تو یہ ہے کہ آخرت کی تیاری کرواور دنیا سے اپنا نصیب و حصہ بھی حاصل کرو۔دین اسلام فطرتی اور عملی دین ہے اس میں انسان کی زندگی سے منسلک تمام احتیاجات و ضروریات کا لحاظ و پاس رکھا گیا ہے البتہ انسان کو اس بات کا پابند ضرور کیا گیا ہے کہ وہ آخرت کے دن کے واقع ہونے اور اس کے مناظر سے متعلق غور فکر ضرور کرے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے تو یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترقی کریں اور پیش قدمی کریں دنیا کی تمام قوت و طاقت کو اپنے پیروں کی خاک بنالیں۔اور دنیا کی تمام راحت و آسانیاں اور علمی ترقی و تخلیق کے میدان میں یگانہ روزگار بن جائیں کہ کسی کا محتاج و گداگر نہ بننا پڑے۔تاہم اس علمی و تحقیقی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ استحضار خداوندی اور تقویٰ کے لباس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
جو لوگ دنیاوی علوم سے منہ موڑتے ہیں اور اپنی زندگی اس عالم میں بسر کرتے ہیں کہ اکتشافات و تحقیق و جستجو سے تہی دامن ہوجاتے ہیں اور اس کا نام زہد و تقوی یا تصوف و پرہیزگاری رکھتے ہیں حق تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں ۔ایسے لوگ تو اسلامی شریعت کے معارف سے آشنا ہی نہیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ذکر صرف تسبیح پڑھنا اور ذکر کرلینا ہی نہیں ہے۔لیکن علم اور معروفت کا حصول اور ان کے ذریعے سے اسلام و مسلمانوں کی خدمت کرنا لازمی و ضروری ہے۔ماسبق کے مسلمان عقائد کی درستگی و عبادات کی پابندی کے ساتھ اسلام کی دعوت کو مشرق و مغرب تک پہنچانے کا ذریعہ بنے ۔علم و حکمت کی تعلیم یورپ تک مسلمانوں کے مرہون منت پہنچے۔ان علوم میں صرف قرآن و سنت اور تفسیر و حدیث ،فقہ و عربی زبان ہی نہیں پہنچائے بلکہ علم الطب،ہندسہ،ریاضی، علم فلک، کیمیا، جغرافیہ اور تاریخی جیسے بے شمار انسانی علوم کو بھی مغرب تک پہنچانے کا سہرا مسلمانوں کے سر سجتاہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کے طلبا و طالبات مسلمان ملکوں میں وظیفوں پر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ اب مغرب علوم و فنون مکا خود شاہسوار بن بیٹھا۔
افسوس کن امر ہے کہ زمانے کے تھپیڑوں کی وجہ ہے یا کچھ اور کہ مسلمان ان سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے جن کا مطالبہ اسلام نے ہم سے کیا ہی نہیں۔علم و معرفت کے میدان سے روگردانی اختیار کرلی،دینی علوم کے اندر بھی ایسی خرافات شامل کردی گئی ہیں کہ اب وہ علوم سوائے حصول برکت کے یا صرف بغیر معرفت یادکرنے کے ان کا عملی و تطبیقی زندگی سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔جبکہ تصوف تو یہ ہے کہ انسان کو حسد و بغض،سستی و کاہلی جیسے امراض خبیثہ سے نجات حاصل کرنی چاہیے جیسے کہ ہم سے پہلے مسلمانوں نے قرآن و سنت کو پڑھا اور اس پر غور و فکر کیا اور اسی طرحعلم طب اور ریاضی وغیرہ جیسے علوم بھی حاصل کیے اور اس میں بے پناہ ترقی و کامیابی حاصل کی کہ کس طرح مریض کے مرض کا علاج کافی و شافی اور جلدی کیا جاسکتاہے کی کھوج لگائی۔اسی طرح زمین پر موجود دیگر علوم پر بھی گرفت حاصل کی اور کام کیا حقیقی تصوف تو یہ ہے کہ جس سے مسلم معاشرے اور مسلم ریاستوں کو اس کا نفع پہنچ جائے۔