تحریر: محمد صدیق پرہار دنیا کے تمام طبقات کے حقوق ہیں لیکن ایک طبقہ اس معاشرہ میں ایسا بھی ہے جس کے کوئی حقوق نہیں۔اس دنیا میں تمام شعبوں سے وابستہ مردوخواتین معاشرہ کاحصہ ہیں ان میں سے کچھ ایسے افرادبھی ہیں جواس معاشرے کاحصہ نہیں۔اس دارفانی میں رہنے والے تمام افرادکی ضروریات ہوتی ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جن کی کوئی ضروریات نہیں۔اس ملک میں سیاستدانوں، تاجروں، صنعت کاروں، دکانداروں، پروفیسروں، ٹیچروں، مزدوروں،پٹواریوں ،وکیلوں، ڈاکٹروں، نرسوں، فنکاروں، گلوکاروں، ادیبوں، صحافیوں، سرکاری ملازموں، آڑھتیوں، کمیشن ایجنٹوں،ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں، ٹرانسپورٹروں، درزیوں، مستریوں، خاکروبوں، چپڑاسیوں،مسافروں، عورتوں، بیویوں، شوہروں، سٹوڈنٹوں، لوہاروں، درکھانوں، نوابوں،امیروںاورمعاشرہ کے دیگرطبقات کے حقوق کیلئے معاشرہ میں کسی نہ کسی شکل میں آواز بلند کی جاتی ہے،ان کے حقوق کی آگاہی کیلئے سیمینارز، مذاکرے،احتجاج کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے حقوق کیلئے کوئی، سیاستدان، کوئی سماجی تنظیم، کوئی شخصیت آواز بلند نہیں کرتی، ان کیلئے کبھی سیمینارز، مذاکرے نہیں ہوئے، کبھی احتجاج نہیں کیے گئے ۔معاشرہ کے تمام طبقات اپنے حقوق حاصل کرنے اورمطالبات منوانے کیلئے ہڑتالیں کرلیتے ہیں۔
وہ طبقہ جس کی ہم بات کررہے ہیں اس نے کبھی ہڑتال نہیں کی۔معاشرہ کے دیگرتمام طبقات کوریاست، سماج، رشتہ داروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ مراعات حاصل ہیں۔ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کوکوئی مراعات حاصل نہیں ہیں۔یہی وہ طبقہ ہے جس کوسب سے زیادہ تنقیدکانشانہ بنایا جاتا ہے،یہی وہ طبقہ جس سے سرزدہونے والی غلطیوںکوبڑھاچڑھاکرپھیلایاجاتا ہے،دیگرتمام طبقات کام چھوڑہڑتال کرتے ہیں یہ طبقہ کام چھوڑہڑتال نہیںکرتا،معاشرہ کے دوسرے اکثرطبقات بھوک ہڑتالیںکرتے ہیں ،یہ طبقہ بھوک ہڑتال بھی نہیںکرتا ،لاکھوںروپے ماہانہ تنخواہ اورآمدنی والے اخراجات کی بھرمار، آمدنی کی کمی کاشکوہ کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں یہ طبقہ قلیل سے بھی قلیل آمدنی میں بھی کسی سے شکوہ کرتا ہواسنائی نہیںدیا۔معاشرہ کے دیگرتمام طبقات میںکام کرنے والوں سے جواب طلبی کے بھی اصول ہیں ان سے ہرشخص بازپرس نہیںکرسکتا،جس طبقہ کی ہم بات کررہے ہیں اس سے جس کاجی چاہتا ہے جواب طلبی کرلیتا ہے۔دنیاکے دیگرتمام طبقات کورہائش، خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اس طبقہ کونہ خوراک کی ضرورت ہے اورنہ ہی رہائش کی۔معاشرہ کے دوسرے طبقات سے وابستہ افرادنے دوست احباب کی خوشی، غمی،دیگرتقریبات میں شرکت کرناہوتی ہے، اس طبقہ نے کسی تقریب میںشرکت کرنانہیںہوتی،دیگرطبقات کے لوگ جہاں چاہیں جب چاہیںجاسکتے ہیں یہ طبقہ کہیں بھی کبھی بھی نہیںجاسکتا۔معاشرہ کے دیگرتمام شعبوںمیںکام کرنے والے چھٹی کرتے ہیںتواپنی جگہ ایسا فردنہیںدے کرجاتے جوان کی جگہ ڈیوٹی دے اس کی جگہ ڈیوٹی کس سے لینی ہے اس کی جگہ ڈیوٹی کون دے گااس کافیصلہ اس شعبہ کے سربراہان کرتے ہیں ۔
اس طبقہ سے وابستہ افرادچھٹی کریں توانہیں ایسافرددے کرجاناپڑتا ہے جوان کی جگہ ڈیوٹی دے۔آپ سوچ رہے ہیں وہ کون ساطبقہ ہے جس کے کوئی حقوق نہیں، وہ کون ساطبقہ ہے جومعاشرہ کاحصہ نہیں۔اس معاشرہ کاوہ کون ساطبقہ ہے جس کی کوئی ضروریات نہیں۔ہم آپ کے صبراورسوچ کااورزیادہ امتحان نہیں لیناچاہتے بتاہی دیتے ہیں وہ طبقہ آئمة المساجدکا ہے۔معاشرہ کے دیگرتمام شعبوں سے وابستہ افرادچھ سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں جبکہ امام مسجدچوبیس گھنٹے کاپابندہوتا ہے۔چارسوروپے کی روزانہ مزدوری کرنے والااورلاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اوردیگرمراعات لینے والے مزے کی نیند سورہے ہوتے ہیں امام مسجدنمازفجرکی اذان کی تیاری کررہا ہوتا ہے۔ہرشعبہ میںکام کرنے والے صرف وہی ڈیوٹی کرتے ہیں جس ڈیوٹی کیلئے وہ تعینات ہوئے ہوتے ہیں مجبوری کی صورت میںوہ دوسرے شخص کی جگہ کام کرتے ہیں وہ بھی چنددنوں کیلئے۔ امام مسجدایک دونہیں چھ افرادکی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔جبکہ معاوضہ اس کوایک ڈیوٹی کابھی نہیںملتا۔جس باقاعدگی اوروقت کی پابندی کے ساتھ امام مسجدسال ہاسال اپنی ڈیوٹی کرتا ہے معاشرہ کاکوئی بھی دوسرافرداسی باقاعدگی اوراسی پابندی سے دودن بھی یہ ڈیوٹی نہیںکرسکتا۔حضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی رحمة اللہ علیہ کے مدرسہ میں کم وبیش دوہزارطالب علم اکتساب علم کرتے تھے۔چنانچہ حضرت خواجہ تونسوی علیہ الرحمة نے ان کے قیام وطعام کابندوبست بھی کررکھاتھا۔ان طالب علموںکوکھانالنگرخانے سے ملتاتھا۔
Imam Masjed
لنگرخانے میں ضرورت ہرچیزہروقت موجودملتی تھی۔آپ رحمة اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں حددرجہ احتیاط سے کام لیاہواتھا حجام، لوہار،موچی اورطبیب غرضیکہ سب کوباقا عدہ تنخواہ ملتی تھی۔ہماری معلومات کے مطابق موجودہ دورمیںکسی مسجدمدرسہ میںحجام، لوہار، موچی اورڈاکٹرتعینات نہیں ہیں۔ہم نے لکھا ہے کہ امام مسجدایک دونہیں چھ افرادکی ڈیوٹی اداکرتا ہے جبکہ اس کومعاوضہ ایک ڈیوٹی کابھی نہیں ملتا۔ہوسکتا ہے قارئین کیلئے یہ بات حیرت کی بات ہوکہ ایک شخص چھ افراد کی ڈیوٹی کیسے اداکرتا ہے۔ ہم آپ کی الجھن کوسمجھتے ہیں اورابھی حل کردیتے ہیں۔مساجدمیں ایک خطیب وامام مسجدہوتا ہے جونمازپنجگانہ، جمعہ وعیدین پڑھاتا ہے، ایک نائب امام ہوتا ہے جوامام مسجدکی غیرموجودگی میںامامت کرانے کاذمہ دارہوتا ہے، ایک موذن ہوتاہے جواذان دیتا ہے، ایک خزانچی ہوتا ہے جومسجد کاچندہ جمع کرتا ہے حسب ضرورت مسجدکے اخراجات بھی کرتا ہے اورامام مسجدکوتنخواہ بھی دیتا ہے۔ایک خادم ہوتا ہے جومسجدکی صفائی کرتا ہے، ضرورت ہوتوچھڑکائوکرتا ہے، صفیں بچھاتا اورلپیٹتاہے۔ایک متولی یامہتمم ہوتا ہے جومسجدکے تمام معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔اب اس دورمیں ایک امام مسجدہی مسجدکے تمام معاملات کاذمہ دارہوتا ہے۔یہ امامت بھی کراتاہے، چندے بھی جمع کرتاہے، مسجدکی صفائی بھی کرتا ہے، مسجدکی لیٹرینیں بھی امام مسجدصاف کرتا ہے،دیگرشہروں میںہو سکتا ہے صورت حال بہترہوراقم الحروف کے شہرلیہ میں امام مسجدکی تنخواہیں پانچ ہزارتک ہیں، صرف گنتی کی چندمساجدہیں جہاں امام مسجدکی تنخواہ پانچ ہزارسے زیادہ ہے۔یہاںتوایک ہزار، دوہزار،تین ہزارروپے ماہانہ تنخواہ امام مسجدکودی جاتی ہے۔
جوبھی آتا ہے وہ امام مسجدکواپنازرخریدغلام سمجھتا ہے کوئی کہتا ہے کہ مسجدکی صفائی نہیں ہے، کوئی کہتا ہے فلش صاف نہیں ہیں، الغرض کوئی نہ کوئی فردجرم آئے روزامام مسجدپرعائدہوتی رہتی ہے۔ایسے امام مسجدبھی ہیں جومسجدکی بجلی کابل بھی اپنی جیب سے دیتے ہیں اب قارئین خوداندازہ لگائیں ایسے امام مسجدکوتنخواہ کتنی ملتی ہوگی۔جس مسجدکے نمازی اوروابستگان مسجدکی بجلی کابل بھی نہیں دے سکتے وہ امام مسجدکوتنخواہ کیادیتے ہوں گے۔لیہ شہرمیں کم وبیش تین سومساجدہیں ان میں ایک مسجدبھی ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ امام مسجدکیلئے ایسی رہائش کاانتظام ہوجس میں وہ اپنے بیوی بچوں کوٹھہراسکے۔چندایک مساجدکے ساتھ امام مسجدکی رہائش کیلئے ایک کمرہ بناہواہے جس کوحجرہ کہتے ہیں ۔اکثرمساجدکے ساتھ یہ حجرہ بھی نہیں ہے۔امام مسجدآئے نمازپڑھاجائے وہ کہاں سوئے کہاں بیٹھے اس سے مساجدکی انتظامیہ کاکوئی واسطہ نہیںہوتا۔وہ کرائے کے مکان میں رہے، کسی مدرسہ میںرہائش اختیارکرے، کسی پارک میںجاکرسوجائے، کسی سڑک کوبچھونابنادے اس کے پیچھے نمازپڑھنے والوںکواس سے کوئی غرض نہیںہوتی ۔تنخواہ ہے تورہائش اورخوراک کاانتظام نہیں، رہائش ہے توتنخواہ اورخوراک کاانتظام نہیں، خوراک ہے تورہائش اورتنخواہ کابندوبست نہیں۔ صرف چندایک مساجد ہیں جہاں یہ سب سہولیات موجودہیں۔
امام مسجدکوایک فیصدبھی تحفظ حاصل نہیں جب چاہیںمسجدسے چھٹی کرادیں۔اس کے حق میںبولنے والابھی کوئی نہیںہوتا ۔جس طرح بے توقیرکرکے امام مسجدکومسجدسے نکالاجاتا ہے کسی اورشعبہ میںکام کرنے والوںکواس طرح بے توقیرکرکے نکالاجاتا تووہ شعبہ اب تک ویران ہو چکا ہوتا۔ امام مسجدکے ساتھ معاشرہ کس طرح کابرتائوکرتا ہے اس کااندازہ اس بات سے لگالیجیے۔ہم ایک مدرسہ میں گئے مدرس سے ملاقات میں امام مسجدوں کے مسائل پر بات ہوئی تواس مدرس نے بتایا کہ ہماراایک طالب علم شہرکی ایک مسجدمیں امامت کراتاتھا ،ایک دن اس کوکسی نمازی نے کہا کہ ہم نے صبح کی سیرکوجانا ہوتا ہے اس لیے دعامختصرکرایاکریں۔دوسرے دن فجرکی نمازکے بعداس نے دعامختصر مانگی ۔ اس پرایک اورنمازی بول پڑا۔ حافظ صاحب کیابات ہے دعاجلدی ختم کردی آج جلدی تھک گئے ہوکیا؟اب کوئی کہتا ہے دعامختصرمانگوکوئی کہتا ہے دعامختصرکیوںمانگی۔اب امام مسجداپنی مرضی سے دعابھی نہیںکراسکتا۔دعاکرانے کیلئے بھی اس کونمازیوںکے مشوروںپرعمل کرناپڑتاہے، صرف دعاہی نہیں وہ نمازوں کے اوقات بھی اپنی مرضی سے مقررنہیں کرسکتا۔وہ نمازکاجوبھی وقت مقرر کرے کوئی نہ کوئی اعتراض توضرورآجاتا ہے کہ یہ نمازکاکون ساوقت ہے۔تمام سرکاری ملازمین کی ہفتہ وارچھٹیوں کے علاوہ سال بھرکی استحقاقیہ اوراتفاقیہ چھٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ ملازمین کوبھی ہفتہ میں ایک چھٹی ہوتی ہے۔ بہت کم ایسے آئمة المساجدہیںجن کوہفتہ بعدچھٹی ملتی ہے ۔ ایسے امام مسجدبھی ہیںجن کوہفتہ میں توکیامہینہ میں بھی ایک چھٹی نہیںملتی۔
Namaz
اگر کسی وجہ سے وہ کہیں چلاجائے اورصرف ایک نماز نہ پڑھاسکے تواس طرح جواب طلبی کی جاتی ہے جیسے وہ امام مسجدنہ ہوگھرکاملازم ہو۔ہمارے شہرکی ایک مسجدمیں ا مام مسجدنے ایک دن چھٹی کوتواس کی یہ کہہ کرچھٹی کرادی گئی کہ اس نے چھٹی کیوںکی۔امام مسجدکاچھٹی کرنا جرم بن گیا۔ایسے ادارے، کمپنیاں جہاں چھٹی نہیںہوتی وہاں چھٹی کے دن کام کرنے معاوضہ ڈبل دیاجاتا ہے۔جبکہ امام مسجدکوچھٹی بھی نہیں دی جاتی ، چھٹی دی بھی جائے توکہاجاتا ہے کہ بندہ دے کرجائوجوہمیںنمازپڑھائے۔امام مسجد کوجوتنخواہ دی جاتی ہے وہ آپ اس تحریرمیںپڑھ چکے ہیں۔دیگربھی کوئی مراعات حاصل نہیں ہے، جب ہرمسجدمیں تنخواہ، رہائش، خوراک کاانتظام نہیں ہے دیگرسہولیات کے بارے میںتوسوچابھی نہیں جاسکتا۔سرکاری وپرائیویٹ اداروں اور محکموںمیں رہائش کاانتظام بھی ہوتا ہے، رہائش کاالائونس بھی دیاجاتا ہے،امام مسجدکونہ رہائش کاالائونس دیاجاتا ہے اورمیڈیکل سمیت دیگرکوئی الائونس دیاجاتا ہے۔جوکپڑے لوگ پہننااپنی پرسنیلٹی کے خلاف تصورکرتے ہیں وہ امام مسجدکودے دیتے ہیں کہ وہ پہنے۔ بہت کم ایسے افرادہیں جوامام مسجدکونیایامعیاری سلاہوا سوٹ دیتے ہیں۔امام مسجدبیمارہوجائے توکوئی مقتدی نہیں کہتا کہ آئوآپ کاعلاج کرائیں۔وہ خود ڈاکٹرکے پاس جائے یاکسی رشتہ دار، شاگردکوبھیجے اوراپناعلاج کرائے توکرائے۔لیہ شہرمیں ایک مسجدایسی بھی ہے کہ امام مسجدکوکھانسی لگی ہوئی ہوتونمازی سیرپ لے آتے ہیں اورامام مسجدکودے دیتے ہیں۔ایسی مساجدبھی ہیں جہاںامام مسجدسے فلش کی صفائی کے بارے میںتوبازپرس کی جاتی ہے کبھی اس سے یہ نہیںپوچھاجاتا کہ اس نے کھانابھی کھایا ہے یانہیں۔
یہ کوئی نہیں کہتا کہ کسی چیزکی ضرورت تونہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مطالبہ چلاآرہا ہے کہ مزدورکی تنخواہ ایک تولہ سوناکے برابرکی جائے جبکہ کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے چپڑاسی اورخاکروب کی تنخواہ بھی امام مسجدکی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔اکثرگھرانوںمیں بچوںکی ٹیوشن فیس بھی امام مسجدکی تنخواہ سے زیادہ ہے،افسوس کی بات تویہ ہے کہ مسجدمکتب سکول میں قرآن پاک پڑھانے والے کودوسوپچاس روپے ماہانہ دیے جارہے ہیں۔اس سے زیادہ تودفتروں،دکانوںمیں روزانہ کی چائے پی جاتی ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ امام مسجدوہ مظلوم طبقہ ہے جس کااحساس نہ ریاست کوہے اورنہ ہی معاشرہ کو۔معاشرہ کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد کی فلاح وبہبوداورمعیارزندگی بہتربنانے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں نئی نئی سکیمیںمتعارف کرائی جاتی ہیں امام مسجد کی فلاح وبہبوداورمعیارزندگی بہتربنانے کیلئے ریاست کی طرف سے نہ توکوئی اقدام اٹھایاگیا ہے اورنہ ہی کوئی سکیم متعار ف کرائی گئی ہے۔سرکاری ملازمتوںمیں مختلف شعبوںکے کوٹے مقرر ہیں امام مسجدکیلئے کوئی کوٹہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ کرایوںمیںبھی رعایت نہیںدی جاتی۔پاکستان کے ایسے شہربھی بتائے جاتے ہیںجہاںامام مسجدکومعقول تنخواہ دی جاتی ہے اور رہائش کابھی معقول انتظام ہوتا ہے۔اکثرشہروںمیںایسانہیں ہے۔ریاست اس طبقہ کے بارے بھی سوچے۔آئمةالمساجدکے مسائل کی طرف بھی توجہ دے۔ آئین بنادیاجائے کہ ہرمسجدکے ساتھ امام مسجدکی رہائش کامعقو ل انتظام ہوناچاہیے جہاںوہ اپنے بیوی بچوںیاماںباپ کوٹھہراسکے۔جومساجدتعمیرہوچکی ہیں وہاں کے شہریوںکیلئے لازمی قراردیاجائے کہ وہ ایک سال میں امام مسجدکی رہائش کامعقول انتظام کریں۔
ہرامام مسجدکی تنخواہ کم سے کم بیس ہزارروپے ماہانہ مقرر کرائی جائے۔متعلقہ ایم این اے اورایم پی اے کی ذمہ داری ہوکہ وہ امام مسجدکی تنخواہ کامحلہ سے انتظام کرائے۔ البتہ ایسے محلے جہاں کے لوگوںکی آمدنی کم ہے اوروہ امام مسجدکوبیس ہزارروپے نہپیں د ے سکتے تواس کاانتظام ریاست کرے۔امام مسجدکوہرماہ چارسے چھ چھٹیاںکرنے کابھی حق حاصل ہوناچاہیے۔امام مسجد کویوٹیلٹی بلزاورضروریات زندگی کی قیمتوںمیں بھی خصوصی رعایت ہونی چاہیے۔جن امام مسجدوںکی تنخواہ پانچ ہزارسے کم ہے ان کوتین،تین ہزار، اورجن امام مسجدکی تنخواہ پانچ ہزارسے آٹھ ہزارتک ہے ان کوایک ہزارروپے ماہانہ ریاست فراہم کرے۔آئمة المساجدکیلئے آسان شرائط پربلاسودقرضہ سکیم بھی شروع کی جائے تاکہ وہ اپناکاروبارکرسکیں۔ جومساجدسرکاری اداروں یاسرکاری زمینوںپرہیں متعلقہ محکمہ کے مقامی افسران کی ذمہ داری ہوکہ وہ امام مسجدکی معقول تنخواہ، معقول رہائش اورمعقول خوراک کاانتظام کریں۔ ہم اس تحریرمیں وزیراعظم نوازشریف اوروزیراعلیٰ شہبازشریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خداراآئمة المساجدکے بارے بھی توجہ کریں۔مسندرسالت کے وارثوںکومزیدبے توقیرہونے سے بچالیں۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سنت پرعمل کرتے ہوئے اس مظلوم طبقہ کی دادرسی کریں۔یہ ریاست کے وفادارہیں ریاست ان کی مشکلات آسان کرے۔سچ تویہ ہے کہ امام مسجدمعاشرہ کاوہ عجیب اورمظلوم طبقہ ہے جس کانہ توکسی کو احساس ہے اورنہ ہی ادراک۔