تحریر : ماورا بشارت چیمہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائی۔کائنات کا نظام مرتب کیا اور اس نظام کو اس طرح سے رائج کیا کہ اک سیکنڈ بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔لاتعداد قانون فطرت میں اک قانون پیدائش انسانیت ،پرورش اور ارتقاء کا بھی ہے۔اس دنیا میں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔بنی نوع انسان کی پیدائش کا آغاز ان سے ہوتا ہے جو آج تک بنا کسی ردوبدل کے جاری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اک اور وجود بھی تعلق رکھتا ہے جو حضرت حوا علیہ السلام ہیں۔ان دونوں بزرگان نے مل کر نسل انسانی کی پیدائش کی اور پیدائش سے ارتقا کا آغاز ہوا۔عورت کا وجود ازل سے ہے اور اس بات سے کوئی ذی روح انکار نہیں کر سکتا۔عورت کی اک مسلم حقیقت ہے اور عورت کے بغیر نسل انسانی کی بقا ناممکن بات ہے۔صدیوں سے یہ نظام قدرت جاری ہے اور ابد تک جاری رہنے والا ہے۔کوئی بھی معاشرہ عورت کے بنا مکمل نہیں ہو سکتا۔
عورت کے وجود کی اہمیت اک گھر سے واضح ہو جاتی ہے۔۔۔۔اک مرد کبھی بھی گھر کو وہ مقام نہیں دے سکتاجو اک عورت دیتی ہے۔عورت کا وجود ہر جگہ لازم و ملزوم ہے۔۔۔۔گھر، باہر، انفرادی، اجتماعی ہر جگہ عورت کے بن ادھوری ہے۔عورت معاشرے کا ایسا ستون ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا۔عورت ہر معاشرے کی تشکیل،اصلاح کی اک بنیادی ضرورت ہے۔معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر،شہر ہو یا دیہات،گھر ہو یا کاروبار ہر جگہ عورت اک مضبوط ستون ہے۔عورت کے بنا یہ کائنات ادھوری ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔ “وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ” عورت اگر گھر کی چار ریواری میں رہتی ہے تب بھی وہ معاشرے کی تشکیل کرتی ہے۔۔۔
اک نیا نسل اس کی گود میں پرورش میں پاتی ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت کا خیال رکھتی ہے۔اک اچھی سوچ دیتے ہوئے معاشرے کا فعال شہری بناتی ہے۔ملک کو جوان ،وفادار اور جوشیلا مستقبل ریتی ہے۔کہا جاتا ہے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کسی بھی ملک کی ترقی،سلامتی ،استحکام اور خوشحالی ہوتی ہے اور وہی نوجوان اک عورت کی گود میں سے فولاد بن کر نکلتے ہیں۔ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درسگاہ ہے۔اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام دیا ہے۔زمانہ جاہلیت میں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا،بیٹی کو پیدا ہوتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
Islam
اسلام نے سب رسومات کو باطل کیا عورت کو اس کا اصل حق دیا اور پھر تاریخ نے دیکھا انہیں عورتوں کی گور میں پلنے والوں نے عرب سے عجم تک اسلام کا پرچم بلند کیا۔اسلام کے سوا کوئی مذہب کوئی فرقہ کوئی گروہ عورت کو باعزت مقام نہیں دیتا۔اگر تاریخ پڑھی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی عورت کو فسار کی جڑ کہتا تھا اور کوئی منحوس جیسے گندے القاب سے نوازتا تھا۔کسی کے نزدیک عورت پاوں کا جوتا تھی اور کوئی اسے دل بہلانے کا ذریعہ سمجھتا تھا الغرض عورت کا صرف استحصال ہوتا تھا۔مگر اسلام اس سب کی نفی کرتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے “اور اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آو” حدیث مبارکہ ہے “جس نے اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی اور اسے اچھے طریقے سے رخصت کیا وہ جنت میں دو انگلیوں کی طرح میرے ساتھ ہو گا ” آج کے ترقی یافتہ دور میں دیکھا جائے تو عورت گھر سے باہر بھی کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہے۔زمانے کی رفتار سے قدم بہ قدم چلتے ہوئے سب کو خیرہ کر رہی ہے۔اپنے مردوں کے ساتھ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح چلتے ہوئے گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھا رہی ہے۔
اگر عورت دیہات سے تعلق رکھتی ہے تو دیہات میں تعلیم کے فروغ کے باعث تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہی ہے۔اگر ماضی قریب میں دیکھے تو عورت کھیتوں میں کام کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔اناج کی کٹائی میں برابر کی حصہ دار ہوتی ہے۔جانوروں کی دیکھ بھال کا کام سرانجام دیتی ہے۔دیہات کی دستکاری عالمی سطح پر پسند کی جاتی ہے اور اس دستکاری سے وہ گھر بیٹھے ذریعہ معاش کا آغاز کرتی ہیں۔الغرض عورت بلا کسی تفریق کے معاشرے کو سہارا دیتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں نظر ڈالی جائے تو عورتیں افق پہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں۔ہر میدان میں مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور فتح کے جھنڈے گھاڑتے ہوئے نظر آتی ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی۔سیاست ہو یا کاروبار،کھیل کے میدان ہوں یا دفاع وطن کی بات ہو،تعلیمی قابلیت ہو عورتیں ہر جگہ نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔
Pak Armed Force
دفاع وطن کی بات آئے تو ہر دفاعی ادارے میں عورتیں موجود ہیں اور مریم مختیار شہید (تمغہ بسالت) فخر پاکستان ہیں۔ارفع کریم رندھاوا،روما سیدین،جیسی لڑکیاں جو ریکارڈ بناتی نظر آتی ہیں۔خواتین فنکار ،خواتین لکھاری بھی سر فہرست ہیں۔یہ سب باتیں کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت ہر معاشرے کا اہم سنگ میل ہے جس کے بنا ہر معاشرہ نامکمل اور بگاڑ کا شکار ہو گا۔غیرت کے نام پر قتل،تیزاب سے جلا دینا،آگ لگا دینا۔۔۔۔یہ سب عورت کی توہین ہے اور زمانہ جاہلیت والے افعال ہیں۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے بہترین قانون سازی کی ہے اور اب اس امر کی ضرورت ہے کہ یہ قانون مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔