تحریر : خرم اشفاق احمد خان ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک استاد نے اپنے طلب علموں کو ایک ایک مرغی صدی اور کہا کہ اس کو ایسی جگہ ذبح کر کے لانا ہے جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ اگلے دن تمام طالب علم مرغی ذبح کر لائے اور اپنی اپنی جگہ کے متعلق بتایا۔لیکن ایک طالب علم مرغی بغیر ذبح کئے لے آیا جب اس سے وجہ دریافت کی گئی کہ اسے ایسی جگہ کیوں نہیں ملی تو اس نے بتایا کہ ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں میرا اللہ موجود نہ ہو وہ مجھے ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اس لئے میں نے مرغی ذبح نہیں کی۔
ہمارے معاشرے میں سے اس پر سے ایمان اٹھ گیا ہے کہ ? کی ذات ہمیں دیکھ رہی ہے جس کی وجہ سے خصوصاً ہماری نوجوان نسل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کا تکیہ کلام “دیکھی جائے گی” معاشرے کے لئے بربادی کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ہم ہر غلط کام سر انجام دے کر کہتے ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔کیا دیکھا جائے گا؟ بہت سے لوگ اپنی دنیاوی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس دنیا میں تو غلط کام کر لیتے ہیں لیکن آخرت کے انجام سے بے خبر رہتے ہیں۔عموماً ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔کوئی غلط کام انجانے میں سرانجام دینا غلطی کے معانی میں آجاتا ہے لیکن وہی کام انجام جانتے ہوئے بھی کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان اس بات کو جھٹلا رہا ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
آخر کیا دیکھیں گے ہم؟ اس دنیا میں تو اپنے سے چھوٹے لوگوں کو دیکھ لیں گے لیکن آخرت کے دن کس کو دیکھیں گے؟ اس دن ہمیں دیکھا جائے گا ہماری اس گزاری ہوئی زندگی کو دیکھا جائے گا۔ہمارے اعمال کو دیکھا جائے گا. ہر انسان کا ایک ہی طریقہ سے حساب کیا جائے گا۔دنیا کی باتیں اور غرور یہاں ہی رہ جائے گا۔ ہر انسان برابر ہو گا۔ اگر ان الفاظ پر غور کیا جائے کہ دیکھا جائے گا تو محض وقتی سکون کے یہ انسان کو کچھ اور مہیا نہیں کرتی۔ وقتی طور پر اپنا دھیان اس طرف سے ہٹانے کے لئے ان الفاط کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا انجام جانتے ہوئے بھی اگر انسان ایسا عمل بار بار دہراتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا ایمان کمزور ہو چکا ہے۔انہیں اپنے اللہ پر بھروسا نہیں رہا۔ ایسے تمام عمل ہماری آنے والی نسل کے لئے خطرہ بن کر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ سب وہی عمل کریں گے جو کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھیں گے۔
Pray of Allah
اگر انسان اس قابل ہے کہ وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے اور اس کا حل نکال سکتا ہے تو اللہ نے اپنے نبی کیوں بھیجے؟ اللہ نے نبیوں کو قوموں پر اس لئے اتارا کیوں کہ انسان اتنا قابل نہیں ہے کہ ہر معاملے کو خود سرانجام دے سکے۔نبیوں کو ان کی رہنمائی کے لئے بھیجا گیا۔ ہر قوم کو نبیوں کی ظرورت رہی ہے اور ان پر اس بات کو لازم قرار دیا گیا کہ وہ تن کی پیروی کریں اور اپنی زندگی ان کے مطابق گزاریں ۔جس قوم نے ایسا نہیں کیا وہ تباہ و برباد ہو گئی ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہم اللہ کے سب سے محبوب نبی حضرت محمد کی قوم میں سے ہیں ورنہ اب تک ہم بھی باقی قوموں کی طرح غرق ہو جاتے۔ ہے یہ ہماری خوش قسمتی لیکن اس کو ہم نے اپنی بربادی کا سبب بنا دیا ہے کہ ہم ہر کام کر لیتے ہیں اور کر کے دل میں محض بس یہ بات آتی ہے کہ “دیکھی جائے گی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنی قدریں بھول گئے ہیں کہ ہم کیا تھے اور کیا بن گئے ہیں۔ تعلق ہمارا اللہ کے محبوب ترین نبی کی امت سے ہے۔ لیکن حال ہمارا اس کے مطابق نہیں رہا ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ اپنی حقیقت سے ہم خود با خوبی واقف ہیں لیکن اس پر شرمندگی محسوص کرنے کی بجائے ہم وہی عمل دہراتے رہتے ہیں۔کون ہے مسلمان؟ سننے اور پڑھنے میں تو یہ سوال بہت آسان لگتا ہے لیکن اس کا جواب دینا اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ مسلمان کی تعریف وہی کر سکتا ہے جو کہ اس پر مکمل طور پر اترے گا۔ اس بات کا اعتراف کرنا کہ مسلمان ہوں ہے تو نہایت آسان کام لیکن مسلمان بن کر رہنا اور ہر وہ کام کرنا جو کہ مسلمان کی نشاندہی کرتا ہے وہ انتہائی کٹھن کام ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی انوکھا کام کرتا ہے۔ ہاں باقی انسانوں سے تو الگ کام کرتا ہے اور ان کو وہ کام مشکل لگتا ہے۔
اسلام ایک بہت ہی سادہ اور آسان دین ہے اگر کہیں یہ مشکل ہے تو وہ پھر ہم نے خود اس کو مشکل بنادیا ہے۔ اسلام میں ہر کام کے لئے رہنمائی موجود ہے لیکن آج کا مسلمان اس طریقہ کو درست نہیں سمجھتا اور اس کام۔کو اپنی مرضی سے کسی دوسرے طریقہ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ جس کام کا طریقہ بتایا گیا ہے اسے اس کے مطابق کیا جائے خودی سے کام نہ لیا جائے۔ کیونکہ ہر وہ قوم جس نے اس بات کا انکار کیا وہ تباہ و برباد ہی ہوئی ہے۔ہم کس سے ڈرتے ہیں؟ کیا ہم اللہ سے ڈرتے ہیں؟ افسوس سے یہ بات کہنی ہو گی کہ نہیں ہم اللہ سے نہیں بلکہ ہم پر آنے والی وقتی مشکلات سے ڈرتے ہیں۔
Muslim
ان مشکلات کا حل تلاش کرتے ہوئے ہم اللہ کو بھول جاتے ہیں کہ ہر کام میں مدد کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ خود کو یا دنیا کے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہم اپنے اللہ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں ہم؟ ہمارے معاشرے کو مکمل طور پر درست کرنے اور اسلام کے مطابق چلانے کے لئے ہمیں خودی کو ختم کرنا ہو گا اور خود کی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈاھلنا ہو گا۔ ایسا دنیا میں کوئی کام نہیں جو انسان خود اللہ کی رضا کے بغیر کر سکے۔