تحریر : روہیل اکبر گذشتہ روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں لندن سے آئے ہوئے ایک پاکستانی شاعر سہیل احمد کے ساتھ ایک شام منائی گئی جہاں پر اسکے دوستوں نے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اسکی بہادری کے قصے سنائے جبکہ شاعروں نے اپنا کلام بھی سنایا اس پروگرام میں جہاں ہنسی مذاق کی محفل تھی وہی دل کو رلادینے والی باتیں بھی تھی شاعر حساس ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ دل اور دلیر بھی ہوتا ہے جو دیکھتا ہے ،محسوس کرتا ہے اور برداشت کرتا ہے اسے پھر وہ خوبصورت الفاظ میں ڈھال کر شاعری کی شکل میں عوام کے سامنے رکھ دیتا ہے جیسے جیسے دنیا ایک گلوبل ویلج بن رہی ہے ویسے ویسے نئے نئے انداز بھی متعارف ہو رہے ہیں اور اب تو پوری دنیا سکڑ کرایک چھوٹے سے موبائل میں سما چکی ہے اور معلومات کاایک ایسا خزانہ ہے جو ر کنے کا نام نہیں لے رہا سہیل احمد نے بھی اسی نئے اور جدید انداز کومدنظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری کی کتاب شائع کی ہے۔
اب یہ ڈیجیٹل شاعری ہر موبائل اور کمپیوٹر پر دستیاب ہے سفر میں یا فراغت میں اس شاعری سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے اور یہ پاکستان میں شاعروں ،ادیبوں اور مصنفوں کے لیے منفرد اسٹائل ہے کہ وہ بہت ہی کم خرچے میں اپنی کتاب آن لائن کرکے اپنی بات لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچاسکتے ہیں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا نے ترقی کی منازل اتنی تیزی سے طے کرلی کہ آج 30سال پیچھے نظر دوڑائیں تو حیرانگی ہوتی ہے مگر زیادہ حیران اور گم سم کرنے والی یہ چیز ہے کہ ہم اس رفتار سے دنیا کا ساتھ نہیں دے سکے جس رفتار سے دنیا ترقی کرکے ہم سے بہت آگے نکل گئی اور ہم آج بھی ترقی یافتہ دنیا سے کم از کم30سال پیچھے ہیں اور یہ فاصلے دن بدن بڑھتے ہی جارہے ہیں سہیل احمد جب اپنی ایک نظم بسنت دے دیہاڑے سنا رہا تھا تو میں اسے موجودہ حالات کے تناظر میں رکھ کر سوچنے لگا کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال ہونے والے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں آئے روز غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا جیسے جیسے دن گذرتے جا رہے ہیں۔
ہم پر غلامی کا رسہ مزید تنگ ہوتا جارہا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے ایک رپوٹ آئی کہ پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ 15ہزار کا مقروض ہوچکا ان میں سے اکثریت ایسے پاکستانیوں کی بھی ہے جنہوں نے آج تک ایک لاکھ روپیہ اکٹھادیکھا نہیں اور کروڑوں پاکستانی ایسے ہیں جواپنی پیدائش سے وفات تک ایک لاکھ روپیہ جمع نہیں کرسکے مگر ہمارے حکمرانوں نے نہ صرف ہمیں مقروض بنا دیا بلکہ ہمارے آنے والے بچوں کو بھی قرض کی بھٹی میں جھونک دیا ہمارے آج کے سیاستدان اربوں روپے لوٹ کر باہر لے گئے ان کے کاروبار باہر ہیں ،بچے باہر ہیں ،مفادات باہر ہیں ،وفاداریاں باہر ہیں اور دوستیاں باہر ہیں پاکستان میں تو یہ لوگ صرف پاکستانیوں کوبیوقوف بنانے آتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار پر قابض رہیں یہ وہ حکمران ہیں جو جیتنے کے بعد عوام سے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔
Poetry
عوامی نمائندوں سے ملنا توہین سمجھتے ہیں اور قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنی مرضی سے موڑ دیتے ہیں عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری بھیڑیے ان کے ذاتی ملازم بن چکے ہیں سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے ہضم کرجاتے ہیں اور عوام کو ہسپتالوں میں سر درد کی گولی بھی نہیں ملتی آئے روز کی ہڑتالوں اور مظاہروں نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے بم دھماکوں نے عجیب دہشت پھیلا رکھی ہے سفارش اور رشوت نے پورے نظام کو ملیامیٹ کردیا ہے نوکریوں سے لیکر تبادلوں تک پر بھی حکمرانوں نے قبضہ کررکھا ہے انکی مرضی کے بغیر کسی کا تبادلہ ہوسکتا ہے نہ ہی کسی کورکھا جاسکتا ہے لوٹ مار کے اس کھیل میں آزادی صرف لٹیروں کے پاس ہے اسکے علاوہ باقی سب بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں ہمارے انتظامی ادارے بڑے ڈاکوؤں کے محافظ بن جاتے ہیں اور شکل سے مسکین اور غریب نظر آنے والے کو پکڑ کر حوالات میں بند کردیتے ہیں چور اچکوں نے ہماری معیشت کو یرغمال بنا کر غریب پیداکرنے کی فیکٹریاں لگارکھی ہیں اور پھر یہ غریب اپنے جیسوں کے ساتھ ہی ظلم کرنے سے باز نہیں آتے کیونکہ ظالم حکمرانوں نے ان میں عقل اور شعور پیداہونے ہی نہیں دیا تب ہی تو ہر الیکشن میں اربوں روپے لگا کر میٹرک پاس جبکہ بعض اوقات انپڑھ سرمایہ دار جیت جاتا ہے اور اسکے مقابلہ میں پڑھالکھا پی ایچ ڈی شخص اپنی ضمانت بھی ضبط کروابیٹھتا ہے۔
یہی حکمرانوں کی سازش ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا تو پھر آنے والی نسلوں کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہم سب ہونگے سہیل احمد اپنی نظم پڑھتا رہااور میں سوچ رہا تھا کہ گذرے 70سالوں میں ہم نے صرف ڈانگ والوں کی ہی سنی انہی کی خدمت کی اور انہی لٹیروں سے ہم اپنے بہتر مستقبل کی امیدیں رکھے ہوئے ہیں جواسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے عوام کے نام کی سیاست کرتے ہیں مگر اپنے مفاد کی خاطر سہیل احمد کی پنجابی کی وہ نظم جس نے مجھے یادوں میں گم کردیا تھا آپ بھی پڑھیں اور پھر گذرے ہوئے اور موجودہ حالات کے بارے میں سوچیں جس کا عنوان ہے بسنت کے دیہاڑے۔
منیا اج بسنت اے پر میں کی کراں بسنت نوں اج تو کئیاں ورھیاں پہلوں جد میں نکا جیہا اک منڈا گڈیاں لٹن ٹریا سی اک اداسی دل وچ لے کے واپس ٹردا آیاسی میں اے گل وی نئیں سی سوچی گڈیاں لٹن وچ وی لمبیاں ڈانگا والے پھردے نیں۔