اس پراجیکٹ کی ترجمان الزبتھ بنٹا نے کہا کہ سولر امپلس ٹو جمعرات کو کسی وقت سپین یا فرانس میں اترے گا اور اس کا تعین موسمی حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔
شمسی توانائی سے چلنے والے ایک طیارے نے پیر کو بحر اوقیانوس پر پرواز شروع کی جو اس کی دنیا کے گرد پرواز کے طویل ترین مرحلوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے گرد پرواز کے دوران ’سولر امپلس ٹو‘ نامی طیارے نے ایندھن کا قطرہ بھی استعمال نہیں کیا۔
ایک سیٹ والے سولر امپلس ٹو طیارے نے صبح دو بج کر 30 منٹ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ سے پرواز شروع کی جو 90 گھنٹے طویل ہونے کا امکان ہے۔
یہ سولر امپلس ٹو کے دنیا کے گرد چکر کا 15 ہواں مرحلہ ہے۔
یہ طیارہ سوئٹزرلینڈ کے دو سائنس دانوں برٹرینڈ پیکارڈ اور آندرے بورش برگ کی تخلیق ہے جنہوں نے اسے 12 سال کی محنت کے بعد تیار کیا ہے اور وہی اس جہاز کے پائلٹ بھی ہیں اور باری باری اسے اڑاتے ہیں۔
اس طیارے کے پروں میں 17,000 سولر سیل لگائے گئے ہیں جن کی چوڑائی بوئنگ 747 طیارے سے زیادہ ہے۔
بحر اوقیانوس پر پرواز میں برٹرینڈ پیکارڈ اس طیارے کے ہواباز ہیں۔
جہاز کی سست رفتار کی وجہ سے اس کے پائلٹوں کو طویل عرصے تک چوکس رہنے کے لیے مراقبے اور مسمریزم کی تربیت دی گئی ہے۔
اس پراجیکٹ کی ترجمان الزبتھ بنٹا نے کہا کہ سولر امپلس ٹو جمعرات کو کسی وقت سپین یا فرانس میں اترے گا اور اس کا تعین موسمی حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔
جہاز کے خالق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کے اس مشن کا مقصد ہوا بازی کی صنعت میں کوئی انقلاب لانا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع اور نئی ٹیکنالوجیز وہ کام بھی انجام دے سکتے ہیں جنہیں بعض لوگ ناممکن سمجھتے ہیں۔
جہاز کی آخری منزل متحدہ عرب امارات کا شہر ابو ظہبی ہے جہاں سے مارچ 2015 میں اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔