پاکستان سمیت دنیا کے ہر خطے میں جہاں جہاں پاکستانی یا کشمیری بستے ہیں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر پہلی دفعہ یکجہتی کا اظہار کیا تھا اس نوجوان کا نام عبدالقدیر تھا یہ کشمیر میں کسی کام سے آیا تھا اور اس نے کشمیریوں کے لہو کے ساتھ اپنا لہو ملا کر آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خطہ کشمیر، ارض فلسطین کے بعد دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے۔ اس سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اسکی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ انکی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اور پوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے۔ لیکن افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ چند نام نہاد سیکولر دانش ور اور لادین طبقات ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت مسئلہ کشمیر کو فراموش کر کے بھارت کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ انکے نزدیک بھارت کی حیثیت “ہمسائے، ماں جائے” کی سی ہے۔
افسوس کہ یہ لوگ خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی، اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہو چکے ہیں کہ دخترانِ ملت کی عزتیں لوٹنے والوں سے دوستی کیونکر ممکن ہے۔؟ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھروں سے دوستی کرنے والوں اور کچے گھروں کے مکین ہونے کے باوجود بارشوں کی دعا ئیں کرنے والوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے ہمارا ہو رہا ہے اور ہم بھی ایسے سخت جاں ہیں کہ ہر سانحہ کے بعد پھر سے نیا تجربہ کرنے میدان میں نکل پڑتے ہیں لیکن کامیاب تو وہی ہوتے ہیں جو سانحہ کے بعد کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ۔ آج ہی ایک سروے پر نظر پڑی جس میں کہا گیا تھا کہ 94فیصد بھارتی پاکستان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں بھارت کی اکثریت کی نظر میں پاکستان کا نمبر پسندیدگی کے لحاظ سے ساب سے نچلے درجے پر ہے یہ سروے ایسے وقت میں آیا جب پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم قوم کو یہ ”خوشخبری” سنا رہے تھے کہ بھارت سے بیک چینل ڈپلومیسی بحال کر دی گئی ہے۔
بھارت سے تجارت اور دوستی ، بیک چینل ڈپلومیسی کا تجربہ ہم پہلی بار نہیں کر رہے اور موجودہ وزیر اعظم تو اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی یہ تجربہ کر چکے ہیں لیکن ان کی جانب سے خیر سگالی کا یہ پیغام شاید بھارتی قوم تک نہیں پہنچا اور نہ ہی ان دانشوروں اور لبرلز( نام نہاد) کا پیغام پہنچا ہے جو پاکستانی قوم کو مختلف ٹی وی چینلز پروگراموں کے ذریعے یہ باور کروانے کی کوشش کروا رہے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام تو آپس میں ملنے کے لئے اس قدر بے چین ہیں کہ وہ سرحد کی لکیروں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دینا چا ہتے ہیں بھارتی عوام شاید ان دانشوروں کی اس جدوجہد سے بے خبر ہیں جو بھارتی عوام کی ”محبت ” میں کر رہے ہیں۔
Pakistan, India
اگرچہ سروے کے نتائج گزشتہ تجربات سے مختلف نہیں ہیں کیونکہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ سے تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ محبت، امن، بھائی چارے اور رواداری کے کتنے ہی گیت الاپتے چلے جائیں، مشترکہ تہذیب و ثقافت کا نعرہ بلند کر کے کتنے ہی ثقافتی طائفے اور وفود کے تبادلے کرتے رہیں، جلتے کشمیر سے آنکھیں بند کر کے دو طرفہ تجارت کو کتنا ہی فروغ دے لیں، سارک کے علاقائی فورم پر علاقائی امن کے لئے اپنے آپ کو کتنا ہی بچھا لیں ہندو کی فطرت پاکستان کے متعلق نہ تبدیل ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے وہ ہمارا پہلے بھی دشمن تھا اور اب بھی دشمن ہے اور دشمن رہے گا ابھی تو ممبئی حملوں کے متعلق صرف ایک نکشاف ہوا ہے بھارتی آفیسر ستیش ورما نے ممبئی حملوں اور پارلیمنٹ حملوں کے بارے میں یہ انکشاف کر کے کہ یہ حملے بھارت نے خود منصوبہ بندی کے تحت کروائے تھے تاکہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے اس کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے گھر کے بھیدی نے عدالت میں یہ بیان دے کر پوری دنیا میں بھارت کی پاکستان دشمنی اور دہشتگردی کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں سکھوں کے قتل عام، بھارت کے مالیگائوں اور مکہ مسجد میں دھماکوں، سمجھوتہ ایکسپریس میں سینکڑوں پاکستانیوں کو زندہ جلانے، بھارت میں مسلم نوجوانوں کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دے کر ان کا انکائونٹر کرنے میں بھارتی ادارے اور انتہا پسند ہندوئوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت اور اشارے مل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران ان نتائج سے سبق سیکھنے کی بجائے بھارت کی طرف دوستی و تجارت کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ قوم ہے جو گزشتہ 67سالوں سے پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہی ہے جس دن ہم بھارت سے بیک چینل ڈپلومیسی کو بحال کر رہے تھے اسی دن مقبوضہ کشمیر میں الحاق پاکستان کا دن منایا جارہا تھا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ایک دن پہلے ہی کشمیر کے رام بن کے علاقے میں بھارت نے ایک امام مسجد کو نماز تراویح کے دوران رفتار کر کے زود و کوب کیا ، مسجد اور قرآن کریم کی بے حرمتی کی اور جاتے ہوئے امام مسجد کو گولی مار کر شہید کر دیا اگلے ہی دن جب کشمیریوں نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی تو لوگوں کے جلوس پر بھی فائرنگ کر دی جس سے آٹھ کشمیری شہید ہوئے جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔
دوسرے علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی اور کرفیو کا نفاذ بھی کر دیا اس سے دو دن پہلے ہی دو نوجوان طالبعلموں کو بی ایس ایف کے اہلکاروں نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ کشمیر کی آزادی کے لئے شہادتوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے ایک لاکھ سے زائد شہادتوں کے باوجود کشمیریوں کی ہمت اور جنون کو داد دینا پڑے گی یہ وہ قوم ہے جس نے اپنی تین نسلیں آزادی کے لیے قربان کر دیں ،گھر بار جائیداد کاروبار کچھ بھی سلامت نہیں رہا چھوٹی سی وادی میں آٹھ لاکھ آرمی ان نہتے کشمیریوں کو محصور کیے ہوئے ہے اگر وادی کی آبادی کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو تقریباً ہر 16کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے اور پھر ان فوجیوں کی جانب سے آئے روز بے گناہ کشمیریوں کی گرفتاریاں، تشدد ،کریک ڈائون ، جعلی انکائونٹر اور قتل عام معمول کی بات ہے جبکہ مختلف کالے قوانین کے ذریعے بھارتی حکومت نے بھی انہیں اختیار دے رکھا ہے ہ جب چاہیں جسے چاہیں گرفتار یا گولی ماری جا سکتی ہے۔
لیکن صد آفرین ہے کہ پھر بھی ان کے عزم کو دبایا نہیں جا سکا اور نہ ہی یہ لوگ آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نظر آتے ہیں وادی کے حالات کا یہ منظر وہاں کی کٹھ پتلی حکومت کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اپنے محض اقتدار کی خاطر اپنی ہی عوام پر ظلم و بربریت کے کھیل پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بھارت کی ساتھ دے رہے ہیں حقییقت تو یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے ہر ایسے واقعہ کے بعد کشمیریوں کے دلوں میں بھارت سے نفرت اور آزادی سے محبت اور بڑھ جاتی ہے سنگینوں کے بل پر آزادی کو سلب کرنا بھارت کے لیے ممکن نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری قیادت اور عوام اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کو اپنا وکیل سمجھتے ہیں اور پاکستان کی عوام نے بھی ہر موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ( کبھی خون کی شکل میں تو کبھی احتجاجی مظاہروں کی شکل میں) کا اظہار کیا ہے اور اس بات کو کشمیری عوام بھی بخوبی جانتے ہیں سری نگر کا لال چوک اس بات کا گواہ ہے کہ جب بھی وہاں کوئی احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے کشمیریوں نے بھارتی سینا کے سامنے ترنگا پرچم کو گرا کر سبز ہلالی پرچم ضرور لہرایا ہے لیکن پاکستانی حکومت کا طرز عمل انتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ واقعہ کے بعد دفتر خارجہ نے محض ایک بیان جاری کیا ہے کہ ہمیں قرآن کی بے حرمتی پر تشویش ہے جبکہ پاکستانی میڈیا اور نام نہاد دانشوروں کی زبانوں کو تو جیسے کسی نے تالہ لگا دیا ہو یہ جو بھارت کی محبت میں مرے جاتے ہیں اور جنوبی ایشیاء کے عوام کا ”در د”د لوں میں لیے دونوں ممالک کی عوام کو ایک کرنے کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
Jammu And Kashmir
انہوں نے تو مذمتی بیانات بھی نہیں دیے دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا طرز عمل بھی افسوسناک حد تک سرد رہا ہے کل تک جو مذہبی جماعتیں کشمیر کے نام پر سیاست کرتی تھیں آج وہ بھی صرف بیانات تک ہی محدود رہیں شاید ان کے سیاسی ترجیحات میں کشمیر بہت پیچھے رہ گیا ۔کشمیری حریت پسندوں کے حوصلے اللہ کے فضل سے بلند ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند اور متعصب ہندو اگرچہ اب تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے رہے ہیں مگر بھارتی پارلیمنٹ اور فوجی حلقوں کے اندر بھی اب یہ صدائے بازگشت پوری دنیا سن رہی ہے کہ وادی کشمیر کو مزید غلامی کے چنگل میں قید رکھنا بھارت کے بس میں نہیں۔ شہیدوں اور غازیوں کا خون پسینہ انشا اللہ رنگ لائے گا۔ غلامی کی زنجیریں انشااللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائیگا۔ کشمیر کی آزادی کے لئے کشمیری عوام تو اپنی جانیں قربان کرکے صف دشمناں کو یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان کے ظلم و ستم کا ہر ہتھکنڈہ اور ہر حربہ ناکام ہو چکا ہے اور اپنی جاں کا قرض وہ چکا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا طرز عمل ان کے لیے حوصلہ افزا نہیں رہا لمحہ فکریہ ہماری سیاسی جماعتوں، مذہبی رہنمائوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے لیے ہے کہ ان کا کردار کیا ہے ان حالات میں حکومت اور بالخصوص سیاسی بازیگروں اور بھارت یاترا کے شوقین نام نہاد دانشوروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں بھارت سے دوستی و تجارت کا آغاز بھی رسوائی اور انجام بھی رسوائی ہے۔