واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے اِس سال مسلمانوں اور میکسیکو کے لوگوں کے بارے میں بیانات دے کر تنازع کھڑا کردیا تھا۔ جمعرات کو ٹرمپ نے صومالی کمیونٹی کو اُسی قطار میں کھڑا کیا۔
مئین کے پورٹلینڈ شہر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، ری پبلیکن پارٹی کے نامزد امیدوار نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صومالیہ کے مہاجرین کو ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ نے عدم استحکام کے شکار ملکوں کے افراد کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں، اور یوں ’’کسی وقت بھی کوئی سر پھرا گھس آئے گا‘‘۔
ٹرمپ نے پناہ گزینوں کے بارے میں چھان بین کے عمل پر شک و شبہے کا اظہار کیا اور زور دیا کہ مہاجرین کے نظام میں دہشت گرد گھس آتے ہیں۔ ہم مئین اور امریکہ کے دیگر مقامات پر سینکڑوں، ہزاروں کو آنے کی اجازت دیتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سینکڑوں اور ہزاروں مہاجرین، جن میں سے کئی دنیا کے انتہائی خطرناک علاقوں اور ملکوں سے وارد ہوتے ہیں۔ اس روایت کو بند ہونا چاہیئے۔ اسے بند کرنا ہوگا‘‘۔
ٹرمپ نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منی سوٹا میں صومالی مہاجرین کی دوبارہ آبادکاری سے ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ تارکین وطن کی کافی تعداد موجود ہے جنھیں روزگار میسر نہیں، جس کے باعث ریاست کے وسائل پر بوجھ پڑتا ہے، جب کہ ’’اسلام پرست دہشت گرد گروپوں میں بھرتی کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے‘‘۔
ٹرمپ نے اجتماع سے کہا کہ ’’یہ ہو رہا ہے، یہی ہو رہا ہے، آپ دیکھتے ہو کہ یہی کچھ ہو رہا ہے، آپ اس کے بارے میں پڑھتے ہو‘‘۔
اُن کی تقریر کے دوران، مظاہرین نے امریکی آئین کی کاپیاں اٹھا رکھی تھیں، جیسا عمل ڈہموکریٹک کنوینشن کے دوران خضر خان نے کیا تھا، جو مسلمان امریکی فوجی کے والد ہیں، جن کا بیٹا عراق میں ہلاک ہوا۔
صومالی امریکیوں کے بارے میں امیدوار کا بیان، جس میں دہشت گرد گروپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، بغیر سبب کے نہیں ہے۔ منی سوٹا میں درجنوں صومالی تارکین وطن شام میں داعش کے شدت پسند گروپ جب کہ صومالیہ میں قائم شدت پسند گروپ الشباب میں شمولیت کے لیے وہاں گئے ہیں۔
ٹرمپ نے اُس صومالی تارکِ وطن کا بھی حوالہ دیا جسے 30 برس قید کی سزا ہوئی ہے، جس نے سنہ 2010ء میں اوریگون میں ’کرسمس ٹری‘ روشن کرنے کی تقریب میں دھماکے کی سازش کی تھی۔
پھر بھی، مئین اور منی سوٹا کی صومالیہ کی کمیونٹیز ٹرمپ کے بیان پر نا خوش ہیں۔