صومالیہ (جیوڈیسک) ضہ کے صوبے صومالیہ میں فوج کے صوبے میں داخلے اور سرکاری عمارتوں پر قبضے کے بعد مقامی حکومت کے حامیوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دئیے ہیں۔
عینی شاہدوں سے موصول معلومات کے مطابق مقامی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان درپیش عدم مفاہمت کے بعد کل شام کے وقت ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے ساتھ سینکڑوں فوجیوں نے صوبے کے دارالحکومت جِگ جیگا کے اہم مقامات پر مورچے سنبھال لئے ہیں۔
صومالیہ کے سربراہ عابدی محمد عمر کے حامیوں کے مطابق فوجیوں کا مقصد صوبے پر قبضہ کرنا ہے۔
عابدی کے حامیوں نے صبح کے وقت احتجاجی مظاہرے شروع کر دئیے ہیں، صوبے میں انٹرنیٹ اور بجلی کی ترسیل منقطع ہو گئی ہے اور مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر آگ جلا کر اطراف کو نقصان پہنچایا ہے۔
حالات کے بارے میں حکومت کی طرف سے تا حال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم دعوے کے مطابق یہ واقعات علاقے کی خود مختاری کے لئے اسمبلی کے اجتماع کا فیصلہ کرنے کے بعد شروع ہوئے ہیں۔
دعووں کے مطابق صومالیہ کے سربراہ عابدی محمد عمر نے وفاقی حکومت کی طرف سے استعفے کی طلب کو مسترد کر دیا ہے اور ایتھوپیا کے آئین کی شق نمبر 39کی رُو سے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے ایتھوپیا سے علیحدگی کے فیصلے کا مطالبہ کیا ہے۔
دعوے کے مطابق ایک طویل عرصے سے عمر حکومت’ اورومیا۔ صومالی’ نسلی جھڑپوں میں شامل ہونے کی وجہ سے تنقیدوں کا سامنا کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں مستقبل قریب میں علاقے سے نکالے جانے والے پیٹرول اور قدرتی گیس کی آمدنی کے موضوع پر بھی اس کے وفاقی حکومت کے ساتھ اختلافات جاری ہیں۔