جانے کیوں مجھے یہ محسوس ہوا کہ کچھ کڑوے سچ کی طرف نگاہ ڈالوں! حالانکہ ”سچ ” کا لفظ ہی گویا کہ ہم لوگوں کی لغت میں نہیں ہے۔ اوپر سے ”کڑوے سچ ” یہ تو سونے پر سہاگہ کے مصداق ہو گیا۔بہرحال اب جبکہ قلم کی نوک ایسے کئی کڑوے سچ کے لئے کاغذ کا سہارا لینے کے لئے تیار ہے تو پھر بھلا میں کون ہوتا ہوں کہ زورِ قلم کو روکوں۔ شہرِ قائد سے ہی شروع کرتے ہیں کہ جہاں رات رات بھر دکانیں کھلی رہتیں تھیں، مقامی اور غیر مقامی افراد کی چہل پہل کی وجہ سے اس کی رونق ہی کچھ اور ہوا کرتی تھی۔ مگر اب جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس شہر کی تمام رونقیں چھین لی ہوں۔ ایک عجیب سی اداسی، مایوسی کی چادر سی پھیلی ہوئی ہے۔
میں نے سوچا کہ جو مجھے محسوس ہو رہا ہے کہیں اس میں میری دلگیر کیفیت کا دخل تو نہیں یا پھر میری عمر کا دخل تو نہیں کیونکہ پہلے عمر کم تھی یعنی بیس بائیس کے جھپیٹے میں تھا تو ہر شئے میں رونق اور رنگینیاں نظر آتیں تھیں اب بڑھتی عمر اور اعصاب کی تھکن کا اثر احساسات پر تو غالب نہیں آگیا۔ میں نے یہاں اپنے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو ان کے چہروں پر بھی ایک عجیب سی مایوسی کا رنگ نظر آیا ۔ ٹھنڈی سانس لے کر انہوں نے بتایاکہ میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دراصل اس شہر میں ایسا وقت آیا ہوا ہے کہ شہری تاریخ کے بد ترین فسادات، دہشت گردی،دھماکوں اور نشانہ وار قتل کی زد میں ہیں۔
اب جبکہ نئی حکومت آنے کی خوشی میں لوگ ببانگِ دہل الیکشن کی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں تو پھر سے یہ دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ایک بار پھر یہ شہر وسوسوں کی زدمیں ہے، فرقہ واریت اور نفرتوں کی زدمیں ہے، نشانہ وار قتل کی زد میں ہے،اور مہنگائی، لوڈ شیڈنگ تو جیسے ان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے جس سے کسی طورپربھی پیچھا نہیں چھوٹ رہا ہے۔عوام مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کی یادوں کو کھرچ کھرچ کر ذہنوں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیںمگر اب اس سے چھٹکارا ممکن نہیں مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ پندرہ سے بیس برس بیت گئے،ایک نئی نسل جواں اور ایک نسل بوڑھی ہوگئی، مگر قتل و غارت گری کی یادیں ہیں کہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔اور چھوڑیں بھی کیسے کیونکہ یہ سلسلہ اگربند ہوا ہو تو دل کو سمجھائیں ،یہ سلسلہ تو مسلسل درازہی ہوتا چلاگیا اور آج بھی جاری ہے۔ حالات ہیں کہ معمول کی طرف آتے ہی نہیں۔
Allah
شہر کی رونقیں اور برکتیں تو ابھی تک واپس نہ آسکیں ۔البتہ مالی اعتبارسے بھی یہاں کے باسی ان برسوں میں کمزور ضرورہوئے ہیں ۔کچھ توحالات سے اس قدر دلبرداشتہ ہوگئے کہ انہوں نے نسل در نسل محنت مشقت کے بعد جو جائدادیں بنائی تھیں اسے بھی دوسروں کو بیچ کر اگلے شہروں کو کوچ کر گئے۔کچھ نے ترکِ وطن بھی کرلی ہے۔یعنی جن کے پاس ایسے ثمرات موجودہیں کہ جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں سو وہ چلے گئے۔رہ گئے غریب تو ان کوتو تمام حالات کا سامنا یہیں کرناہے اوراسی مٹی میں ایک دن مل جانا ہے۔اب عروس العباد کراچی میں بھی تنہائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، مگراللہ کی ذات سے یہاں کے باسیوں کو قوی امیدیں ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہاں کے حالات بھی بدلیں گے۔
حکومتوں کے فیصلے آتے رہتے ہیں اور دوسرے ہی دن اس میں شگاف پڑتے نظر آتے ہیںکیونکہ یہاں فیصلے صرف اخباروں کی شہ سرخیوں میں ہی پڑھنے کوملتے ہیں اس پر عمل در آمد نہیں ہوپاتا۔اور پھر ایک دوسرے پر نکتہ چینی کی بیج بوئے جانے لگتے ہیںجس کی وجہ سے بھی یہ موثر ہتھیار ثابت نہیں ہوتا۔معاملہ چاہے کوئی بھی ہو حکمران اوّل تو فیصلے کرتے نہیں کہ انہیں کس سمت میں کیاکرناہے اور اگر کبھی فیصلہ کر بھی لیاتو نکتہ چینی والے افراد کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔یوں ہمارے یہاں کوئی بھی کام مستقل مزاجی سے نہیں ہوپاتااور جس کانتیجہ یہ سامنے آتاہے کہ ہم بجائے ترقی کرنے کے پستی کی طرف ہی مائل بہ سفر ہو رہے ہیں۔ایسے حال میں کوئی کیاکہے گا بشمول میرے ! بس اس شعر پر ہی اکتفا کرنے کو جی چاہتا ہے۔
خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
Blast
شہر میں امکانی دھماکہ اور نقصانات کو لیکر آج کل لوگ بہت پریشان ہیں۔ویسے جب تک اس معاملے کا صفایا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک نہ تو اس ملک کے عوام کو چین و سکھ حاصل ہوگااورنہ ہی انہیں سکون نصیب ہوگا۔اس موقع پرپولیس یہ کہتی ہے کہ عوام اپنے ارادے مضبوط کریں اور شہری اپنافرض سمجھتے ہوئے اپنے اطراف واکناف میں ہونے والی مشتبہ سرگرمیوں پردھیان دیں تاکہ سازشی ذہن کی کارستانیوں سے پورے معاشرہ کو بچایا جاسکے۔بلا شبہ بات ٹھیک ہے مگراس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ عوام میں سے کوئی بھی فرد کسی مشتبہ چیز کے بارے میں یا کسی اور معاملے میں اطلاع دیں تو ہماری پولیس وقت پر پہنچ کر اس کا قلعہ قمع کر دے گی۔
اطلاع دینے والے کو بھی پریشان نہیں کرے گی، اگرچہ آج تک بزرگوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ہماری پولیس ہمیشہ دیر سے ہی آتی ہے۔ایک اور سچ جو بین الاقوامی نوعیت کا ہے ۔ مغرب یہ نہیں چاہتا کہ مسلم ممالک ترقی کریں، ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمارے یہاں دیگر مذاہب کے لوگ نہیں بستے، کیا انہیں مکان ، کھانے پینے اور پڑھائی لکھائی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، اگر ایسا ہی ہے تو مسلم ملکوں کی ترقی ایک بیماری جیسی کیوں بن گئی ہے؟ عوام و خواص سبھی اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں کہ مسلم ملکوں کی ترقی ہونی چاہیئے،ہر روز اخباروں میں یہی عنوان دیکھنے کو ملتا ہے ، ایسا اس لئے ہے کہ مغرب ہمارے بنیاد کو کمزور کرنے کی خطرناک سازش کر رہا ہے، انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔
Load Shedding
آج پاکستانی معاشرہ اخلاقی پستی ، مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ کی دلدل میںتیزی سے دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اور ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ ہم سب نے انسانیت کا لبادہ اُتار پھینکا ہے اور حیوانیت کی ردا اوڑھ لی ہے۔ ہمارے اندر نہ کوئی شرم و حیا بچی ہے اور نہ ہی غیرت و حمیت۔ احساسِ ندامت تو جانے کب کا دم توڑ چکا ہے اور ہمارا ضمیر تو جانے کب کا ہی مر چکا ہے اور ہم سب نے اس کی تجہیز و تکفین بھی کر دی ہے۔ آج انسان ، انسان سے ڈر رہا ہے ، کیسے حالات بنا دیئے گئے ہیں وطنِ عزیز میں، غریب بھوکا مر رہا ہے اور یہاں سب ٹھیک ہے کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی ایسا نہیں ہے اور ہم سب کے اندر احترامِ انسانیت کی ذرا سی بھی رمق باقی ہے تو پھر ہمیں اپنے گریبانوں میں منھ ڈال کر سوچنا چاہیئے کہ آخر ہمارے معاشرے میں اس وقت کیا ہو رہا ہے۔
صبح کو اخبار اٹھایئے یا کوئی نیوز چینل دیکھئے تو بے امن و امانی ہمارا منہ چڑاتی ہوئی مل جائے گی۔ کیونکہ پندرہ سے بیس بے گناہ لوگ روز ہی سپردِ خاک ہو جاتے ہیں۔ اور پھر دھماکے، قتل و غارت گری نہ صرف معیشت بلکہ انسان کو بھی پتھروں کے زمانے میں ڈھکیل رہے ہیں۔ ہم سے اچھے تو وہ غیر تربیت یافتہ قوم ہیں جو انسانیت اور آدمیت کا احترام کرنا جانتی ہیں اور جو اپنی حرص و حوس کے لئے اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکالتیں۔ اگر ہمارا ضمیر واقعی مردہ نہیں ہوا ہے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں اور کدھر جا رہے ہیں کیا ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ایک مہذب معاشرہ دینے کے اہل ہیں۔ اگر نہیں تو ہمیں ترقیات زمانہ سے دست کش ہوکر انسانیت اور آدمیت کا سبق پڑھنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔