تحریر: ملک نذیر اعوان۔ خوشاب قارئین محترم امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی کی شان بہت بلند و بالا ہے۔آپ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں۔اور ذوالنورین سے مراد(دو نور والے) بھی ہے۔کیونکہ پیارے آقاۖ کی دو صاحبزادیاں بھی یکے بعد دیگرے حضرت سیدنا عثمان غنی کے نکاح میں رہیں۔اس کے بعد آپ تیسرے خلیفہ بھی ہیں حضرت عثمان غنی کو کئی بار حضور پر نورآقا دو جہاںسرورکائنات ۖنے جنت کی بشارت دی۔آپ اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ سخاوت میں مشہوراور شرم و حیاء صفت میں بے مثال تھے۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں۔کہ جب حضرت عثمان غنی ہمارے گھر میں تشریف لاتے تھے۔تو سب سے پہلے آقا دو جہاںۖاپنا لباس درست کرتے تھے اور آپ ساتھ یہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔کہ میں حضرت عثمان غنی سے کیوں نہ حیاء کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
ایک موقع پرتاجدار مدینہ نورمجسم سرکار دو عالمۖ نے ارشاد فرمایا جنت میں ہر نبی کارفیق ہوتا ہے۔میرا رفیق حضرت عثمان غنی ہو گا۔آپ نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔آپ کو(دو ہجرتوں والے)بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ حضرت عثمان غنی نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔آپ نے اپنی مبارک زندگی میںرحمت دو عالم،مالک جنتۖ سے دو مرتبہ جنت خریدی۔ایک مرتبہ بیررومہ یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کر دی۔اور دوسری بار غزوہ تبوک کے موقع پر بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حضرت سیدنا عبدالرحمن بن خباب سے مروی ہے۔ کہ میں تاجدار مدینہ قلب سینہ آقا دو جہاں ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔تو نبی پاکۖ صحابہ کرام کو جیش و عسرت(یعنی غزوئہ تبوک) کی تیاری کے لیے ارشاد فرما رہے تھے۔تو حضرت ابو بکر صدیق اٹھ کرکھڑے ہوئے اور فرمایا ،،یا رسول اللہ ۖ میں اپنے گھر کا سارا سامان اللہ کے نام پر دوں گا۔اس کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا،، یا رسول اللہ ۖ میں اپنے گھر کا آدھا سامان اللہ کے راہ پر خرچ کروں گا۔
Muhammad PBUH
اسی موقع پردوبارہ اللہ کے محبوب ۖ نے صحابہ کرام کو ارشاد فرمایا تو حضرت عثمان غنی اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا ،،یا رسول اللہۖ ستر گھوڑے، تین سو اونٹ اور متعلقہ سامان کا میں ذمہ دار ہوں گا۔راوی فرماتے ہیں۔میں دیکھاکہ حضور پر نورآقا دو جہاں ۖ یہ سن کرمنبر منور سے نیچے تشریف لا کر دو مرتبہ فر مایا آج سے عثمان جو کچھ کرے اس پر مواخذہ(یعنی پوچھ گچھ نہیں)،،امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی عاشق رسول بلکہ عشق مصطفےٰ ۖ کا عملی نمونہ تھے اورآپ محبوب خدا ۖ کی سنتیں اور ادائیں اپنایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ سیدنا حضرت عثمان غنی وضو فرما رہے تھے تو آپ نے مسکرانا شروع کر دیا۔جب لوگوں نے آپ سے دریافت کیایہ کیا ماجرا ہے۔توآپ نے فرمایا اسی جگہ پر ایک دن اللہ کے محبوب ۖوضو کرتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
اسی طرح ایک اور موقع پرمسجد کے قریب آپ نے بکری کے گوشت کی دستی منگوائی یہاں پرنوش فرمائی پھر نماز ادا کی۔آپ اکثر روزے کی حالت میں ہوتے تھے۔آپ باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرتے تھے۔آپ قطعی جنتی ہونے کے باوجود بھی عذاب قبر کو یاد رکھتے تھے۔جب سیدناحضرت عثمان غنی کسی قبر پر جاتے تو آپ کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہو جاتی۔آپ شرم حیاء کے پیکر تھے اسی بنا پر فرشتے بھی آپ سے حیاء کرتے تھے آپ نے اپنے دور خلافت میںبہت سے علاقے فتح کیے۔ایک مرتبے آپ اپنے باغ سے لکڑیوں کاگٹھا اٹھا کر آرہے تھے توغلام نے کہا کہامیر المومنین آپ مجھے دے دیں تو آپ نے جواب دیا کہ میںاپنے نفس کو از ما رہا ہوں۔
Islam
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے اپنے غلام کا کان مروڑا توآپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ آپ میرا کان بھی مروڑ دیں۔اور یہاں تک ہے کہ دائرہ اسلام سے پہلے بھی کسی سے کوئی زیادتی یا ریاکاری نہ کی۔آپ نے دین اسلام کے لیے جانی و مالی بہت قربانیاں دیں۔آخر کار باغیوں نے مدینہ پاک کا محاصرہ کر لیا اور آپ کاچالیس روز سے کھانا پینا بند کر دیا ۔باغی آپ کو بہت ستاتے تھے اور اسی اثناء میں شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ نے حضرت عثمان غنی سے فرمایا کہ ان باغیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
مگر آپ نے فرمایا کہ میں مدینہ پاک کی گلیوں کو خون سے سرخ نہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ آخر کار ا میر المومنین سیدنا حضرت عثمان غنی روزے کی حالت میں تھے۔اور آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔کہ چند شر پسند اندر گھس آئے۔آپ کو بے دردگی سے برچھوں کے وار کر کے لہولہان کر دیا۔اور خون کا پہلا قطرہ قرآن پاک کی اس آیت پر گرا ۔جس کا ترجمعہ یہ ہے،اللہ پاک دیکھنے اور سننے والا ہے۔آخر کار آپ ٣٥ سن ہجری،١٨ذوالج اورجمعتہ المبارک کو شہادت نوش فرما گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔