تحریر: ماریہ پارس خان “بیٹی” ب کی گردان میں سب سے میٹھا اور پیارا لفظ، خوبصورت اور نرم خو سا احساس۔ اسلام کی تاریخ میں بارباراس کیلئے “رحمت” کا لفظ استعمال کیا گیا اور بیٹے کےلیے “نعمت۔”
لیکن یہ انسان کی فطرت اور جبلی تقاضا ہے کہ وہ رحمت کی جگہ نعمت کو ترجیح دیتا ہے یعنی بظاہر فایدہ دینے والی چیز کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ روحانیت کی جگہ شیطانیت کو عمل میں لایا جاتا ہے اور پھر اسی تگ و دو میں وہ ناشکرا بن کر رحمت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ۔
بالکل یہی فرق ہمارے معاشرے میں بیٹے اور بیٹی کے درمیان رکھا جاتا ہے ۔ بیٹا جب پیدا ہوتا ہے تو شہنائیاں گونج اٹھتی ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، عقیقے کیے جاتے ہیں، رشتہ داروں کی دعوتیں، صدقہ خیرات وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور اس کام میں امیر غریب کا فرق بھی مٹ جاتا ہے، ایک امیر بھی بیٹے کی پیدائش پر جشن مناتا ہے اور ایک غریب بھی چاہے اس کےلیے اسے کسی کا مقروض ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
Birth Of Daughter
دوسری طرف بیٹی کی پیدائش پر 80% لوگ منہ بسور لیتے ہیں اور کچھ تو بنا کسی لحاظ مروت کے اچھی خاصی ناگواری کا اظہار کر دیتے ہیں، بعد میں چاہے جتنا مرضی خوشی کا اظہار کریں، تاویلیں گھڑیں لیکن وہ پہلا ردعمل ہی سب سے اہم ہوتا ہے اور بیٹی کے نصیب کا اہم جزو۔
چودہ سو سال پہلے کے زمانہ کو ہم زمانہ جاہلیت کا نام دیتے ہیں اور آج21 صدی کے زمانے کو ماڈرن ازم کے پیروکاروں کا دور کہا جاتاہے۔لیکن اگر دیکھا جائے تو ہم آج بھی اسی جاہلیت کے دور میں جی رہے ہیں کل بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا تو آج ماڈرن ازم کے دور میں الٹرا ساؤنڈ کے زریعے بچے کی جنس معلوم ہونے پر نہ جانے کتنی معصوم کلیوں کو تخلیق سے پہلے ہی فنا کر دیا جاتا ہے۔
زرا مطوست طبقے کی طرف آئیں تو دیکھنے میں ملتا ہے کہ مائیں ہر کام میں بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتی ہیں، یہاں تک کہ کھانے کے معاملے میں بھی اکثر چیزوں پر بیٹیوں کا ہاتھ روک کر بیٹوں کے آگے رکھ دی جاتی ہے اور ساتھ میں یہ مشہور و معروف اقوال دہرایا جاتا ہے کہ بیٹا جتنا جلدی بڑا ہو گا اتنا جلدی کما کر گھر لائے گا، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بیٹی کی صحت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا بیٹے کی کیونکہ کل کو اس نے ایک ماں کے درجے پر فائز ہو کر تمام عمر اپنے فرائض کو نبھانا ہے اور بلاشبہ ایک ماں اس کائنات کی سب سے ذیادہ محنت کش مخلوق ہے۔
Islam Daughter
اس سے ذرا نچلے طبقے میں دیکھا جائے تو بیٹا بیمار ہو تو گھر بھر تک بیچ دیا جاتا ہے اور اگر بیٹی بیمار ہو تو بس دم درود پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے، کہیں تو وہ بھی نہیں…..افسوس!!
اب آتے ہیں سب سے اہم بات کی طرف وہ ہے بیٹی کا رشتہ! اسلام نے بیٹی کی مرضی کو بہت اہمیت دی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو 95% لوگ بیٹی کے آنسوؤں کو نظرانداز کر کے اپنی مرضی تھوپتے ہیں لیکن بیٹا اگر کسی کو ریجیکٹ کر دے تو اکثر مان لیا جاتا ہے کیونکہ بیٹے کے گھر سے بھاگ جانے اور نافرمان ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف بیٹی پر جیسے مرضی حکم چلاؤ اس نے کونسا بھاگ کر کہیں جانا ہے، اور اگر 100 میں سے ایک پسند کی شادی کر ہی لے تو اس سے ہر رشتہ ناطہ ختم کر دیا جاتا ہے اور زمانہ اسکا جینا حرام کر دیتا ہے ـ گھر سے بھاگی لڑکی کا لقب دے کر، کچھ عرصہ بعد میاں بھی بیزار، ایسی صورت میں کچھ کی علیحدگی ہو جاتی ہے تو کچھ کسی نہ کسی طرح گزارا کر ہی لیتے ہیں اور پھر اسکا اثر آئیندہ آنے والی نسلوں پر بہت بری طرح پڑتا ہے اور رحمت زحمت کا روپ دھار لیتی ہے۔
ذرا غور کیجیئے!! اس سب کا زمہ دار آخر کون ہے؟ جی تو اس کی زمہ دار وہ لڑکی بالکل نہیں، اس کے زمہ دار آپ ہیں.ایک لڑکی جب بغاوت کرتی ہے تو اپنی مرضی سے نہیں کرتی بلکہ اسے بغاوت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور مجبور کرنے والا ہمیشہ مرد ہوتا ہے روپ چاہے کوئی بھی ہو۔ ہم خود اس کیلئے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہو جاتی ہے، ذرا سوچیئے! اگر ہم اپنے دین اسلام کے احکامات کو سامنے رکھ کر سنت نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے فیصلہ کریں تو کیا ایسا ہوگا؟؟
Forcibly
بالکل بھی نہیں، ہمارا مذہب بہت وسیع اور کشادہ ہے۔اس میں بے جا پابندی اور زور و زبردستی کی ذرا بھی گنجائش نہیں، تو اے امت مسلمہ خود کو اپنے مقام سے اتنا نیچے مت گرا یۓ، اسلام کے اصولوں پر عمل کیجیئے ۔بیٹی کو بھی بیٹے کے برابر سمجھیئے، اتنی ہی عزت اور محبت دیجیئے تاکہ اس میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ ذندگی کے ہر موڑ پر بھر پور طریقے سے آگے بڑھ سکے ۔دو لوگوں کو جوڑنے سے پہلے انکی رائے خاص طور پر بیٹی کی رضامندی ضرور لیں اور اسکی رائے کا احترام کیجیئے کیونکہ بے جوڑ رشتے ساری عمر بے جوڑ ہی رہتے ہیں ان کے دل اور دماغ کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہو پاتے اور ایسے رشتے سب کےلیئے زحمت کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ تو خدارا اپنی سوچ اور معاشرے کو بدلیں اور اپنی رحمت کو زحمت بننے پر مجبور نہ کریں تاکہ رشتوں کی مٹھاس قائم رہے۔