رشتوں کا احترام

Facebook

Facebook

تحریر: سحاب احمد فرام فیصل آباد
بیٹا بازار سے بریڈ اور انڈے لے آؤ ناشتہ بنانا ہے. کل یاد نہیں رہا منگوانا ـ
اوکے مما!!!!! بیٹا اٹھ جاؤ ایک گھنٹہ ہوگیا تمہیں کہتے. اچھا مما!!! علی پھر سے فون پر بزی ہوچکا تھا. اسکا معمول تھا کہ صبح نماز پڑھے یا نہ پڑھے مگر facebook پر ان لائن ضرور ہوجاتا ہے. حسن اسکا دوست بھی ان لائن ہوچکا تھا. گروپ میں بہت سی پوسٹ پر اچھے اچھے کمنٹ کیے جا رہے تھے. وہ سب کے ساتھ باتوں میں مگن یہ بھول چکا تھا کہ اسکی ماں نے صبح سے اسے کتنی بار آوازیں دے کر اٹھانا چاہا تھا. ماں ایک بار پھر اسے موبائل پر بزی دیکھ کر دروازے سے پلٹ گئیں. مگر اسے کوئی فکر نہیں تھی. اچانک گروپ میں کسی نے ماں کے آدب اور خدمت کرنے پر پوسٹ لگا دی. علی سوچنے لگا کہ کمنٹ میں ماں کی عظمت کے بارے میں ایسا کیا لکھے کہ سب اس کمنٹ کو لائک کریں. اور اس نے بہت سوچنے پر کمنٹ لکھا اور اسکی سوچ کے مطابق اسکو بے حد داد دی گئی. بیٹا دوپہر ہوگئی سبزی لے آؤ جو بھی تمہیں پسند ہو میں بنادونگی. افففف ایک تو اپ لوگ بھی سکون سے مت رہنے دیں مجھے. یہاں ایک پل بھی سکون نہیں. ہروقت کام کام. علی نے اکتاہٹ سے جواب دیا. لیکن بیٹا میں ـــ بسسسس مما آپ جائیں ـ

یہ سب بولتے اور ایسا سلوک کرتے ہوئے علی بالکل بھول چکا تھا کہ وہ کمنٹ میں ماں کی فرمانبرداری اور خدمت پر کیا کچھ لکھ رہا ہے. بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب ماں، باپ اور بہن بھائی کو رئیل لائف میں کوئی عزت نہیں دی جاتی ان رشتوں کا احترام بسس سوشل میڈیا پر رھ گیا ہے.. ہمیں تو انسانیت کا حق ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے. مگر اب لگتا ہے کہ احترام تو بس سوشل میڈیا تک محدود ہوچکا ہے. سب ہر وقت سوشل میڈیا پر مصروف نظر آتے ہیں. مانا کہ سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہے سوشل میڈیا اپنے عزیزوں اقارب کے ساتھ رابطے کا بہترین ذریعے ہے. لوگ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے حالات سے باخبر رہتے ہیں. سٹوڈنٹس اپنی تعلیم میں درپیش کوئی مشکل ہو فورا google پر راہنمائی حاصل کرتا ہے.جہاں سوشل میڈیا کا استعمال فوائد نظر آتے ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں.

Social Media

Social Media

آجکل تو اسکا استعمال مثبت کی بجائے منفی زیادہ کیا جاتا ہے. نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کا استعمال انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں. ہروقت مختلف ویب سائٹس پر مصروف نظر آتا ہے. ان کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھ سکے. ان سے کچھ سیکھ سکے. سوشل میڈیا نے جہاں دور رہنے والوں کو نزدیک کردیا وہی پاس بیٹھے گھر کے فرد سے دور کردیا. ہر وقت اپنے موبائل فونز اور کمپیوٹر پر بزی رہنے پر گھر والوں سے دور ہوتا جارہا ہے. اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ دومنٹ اپنا سیل پاکٹ میں ڈال کر گھر والوں کی بات ہی سن سکے. شاید دین سے دوری کا سبب بھی یہی بات ہے. کہ جب انکے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار سکے. اپنے بزرگوں سے دین اسلام کے بارے میں معلومات جان سکے. اخلاقیات کسے کہتے ہیں سمجھ سکے. اس لیے آجکل نوجوان طبقہ زیادہ بے راہ روی کا شکار ہے اور اپنے لیے غلط راستے کا چناؤ کر لیتا ہے. جس کا خمیازہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی فیملی کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.

ایسے بہت سے طالب علم بھی ہیں جو اب سوشل میڈیا کو اپنی تعلمی سہولت لے لیے کم صرف دوستوں سے گپ شپ کرنے اور گیمز اور کمنٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں. نتیجہ امتحان میں اتنی کامیابی نہیں ملتی.کیونکہ ہر چیز کا بے جاہ استعمال نقصان دہ ہوتا ہے. آج کل نوجوان طبقہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے. فیس بک پر کئی کئی فیک آئی ڈیز بنا کر دوسروں کو بیوقوف بناتے ہیں. لیکن بیوقوف دوسرے ہی نہیں وہ بھی بن جاتا ہے. کیونکہ جو بونا ہے وہ کاٹنا ہے. جو دو گے وہ واپس پلٹ کر دوگنا آپکو مل جائے گا.

سوشل میڈیا پر جہاں بہت سی ویب سائٹس معلومات میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں وہی سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں بھی ڈال دی گئی ہیں جو بے حیائی اور فحاشی کا سبب بنتی ہیں. جس سے نوجوان طبقہ بالکل اخلاقیات اور انسانیت سے گر جاتاہے.گمراہی کا شکار ہو کر اپنے اصل سے بھٹک جاتا ہے.
آج سوشل میڈیا پر بہت سی ایپ دنیا میں استعمال ہورہی ہیں جن کا استعمال بس
نقصان دہ ہے.

Parents

Parents

ان سب نقصان میں سب کا قصور ہے. والدین جو اپنے بچوں سے بیخبر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں. انکو پیار سے اپنے پاس بٹھائیں. ان کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھیں. حکومت بھی غلط ویب سائٹس کو ختم کرنے میں اپنا کرادار ادا کرے. نوجوان طبقے کو اپنے والدین کو، اپنے دین اسلام کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور اسکی لگائی گئی حدود و قیود کا خیال رکھے اور انکی پاسداری کرے. سوشل میڈیا کو صرف فائدے کے لیے استعمال کرے اور ضرورت کے وقت کرے تاکہ اسکا استمال کامیابی کا ذریعہ بن سکے. ناکہ بے جا استعمال اسکی صحت پر برے اثرات چھوڑے اور وہ گمراہی کا شکار نہ بنے۔

تحریر: سحاب احمد فرام فیصل آباد